مجاز کس سےمحبت ہے؟

حسان خان

لائبریرین
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں! کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں، وہ اُس دنیا کی عورت ہے
سراپا رنگ و بو ہے پیکرِ حسن و لطافت ہے
بہشتِ گوش ہوتی ہیں گہر افشانیاں اس کی
وہ میرے آسماں پر اخترِ صبحِ قیامت ہے
ثریا بخت ہے، زہرہ جبیں ہے، ماہِ طلعت ہے
مرا ایماں ہے، میری زندگی ہے، میری جنت ہے
مری آنکھوں کو خیرہ کر گئیں تابانیاں اس کی
وہ اک مضراب ہے اور چھیڑ سکتی ہے رگِ جاں کو
وہ چنگاری ہے لیکن پھونک سکتی ہے گلستاں کو
وہ بجلی ہے جلا سکتی ہے ساری بزمِ امکاں کو
ابھی میرے ہی دل تک ہیں شرر سامانیاں اس کی
زباں پر ہیں ابھی تک عصمت و تقدیس کے نغمے
وہ بڑھ جاتی ہے اس دنیا سے اکثر اس قدر آگے
مری تخیل کے بازو بھی اُس کو چھو نہیں سکتے
مجھے حیران کر دیتی ہیں نکتہ دانیاں اس کی
کتاب میں 'تخیل' مونث ہی باندھا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کتابت کی غلطی ہو۔
جبیں پر سایہ گستر پرتوِ قندیلِ رہبانی
عذارِ نرم و نازک پر شفق کی رنگ افشانی
قدم پر لوٹتی ہے عظمتِ تاجِ سلیمانی
ازل سے معتقد ہے محفلِ نورانیاں اس کی
ادائیں لے کے آئی ہے وہ فطرت کے خزانوں سے
جگا سکتی ہے محفل کو نظر کے تازیانوں سے
وہ ملکہ ہے خراج اس نے لیے ہیں بوستانوں سے
بس اک میں نے ہی اکثر کی ہیں نافرمانیاں اس کی
وہ میری جرأتوں پر بے نیازی کی سزا دینا
ہوس کی ظلمتوں پر ناز کی بجلی گرا دینا
نگاہِ شوق کی بے باکیوں پر مسکرا دینا
جنوں کو درسِ تمکیں دے گئیں نادانیاں اس کی
وفا خود کی ہے اور میری وفا کو آزمایا ہے
مجھے چاہا ہے، مجھ کو اپنی آنکھوں پر بٹھایا ہے
مرا ہر شعر تنہائی میں اس نے گنگنایا ہے
سنی ہیں میں نے اکثر چھپ کے نغمہ خوانیاں اس کی
مرے چہرے پہ جب بھی فکر کے آثار پائے ہیں
مجھے تسکین دی ہے، میرے اندیشے مٹائے ہیں
مرے شانے پہ سر تک رکھ دیا ہے ، گیت گائے ہیں
مری دنیا بدل دیتی ہیں خوش الحانیاں اس کی
لبِ لعلیں پہ لاکھا ہے، نہ رخساروں پہ غازہ ہے
جبینِ نور افشاں پر نہ جھومر ہے، نہ ٹیکا ہے
جوانی ہے سہاگ اس کا تبسم اس کا گہنا ہے
نہیں آلودۂ ظلمت سحر دامانیاں اس کی
کوئی میرے سوا اس کا نشاں پا ہی نہیں سکتا
کوئی اس بارگاہِ ناز تک جا ہی نہیں سکتا
کوئی اس کے جنوں کا زمزمہ گا ہی نہیں سکتا
جھلکتی ہیں مرے اشعار میں جولانیاں اس کی

(اسرار الحق مجاز)
 

طارق شاہ

محفلین
مری تخیل کے بازو بھی اُس کو چھو نہیں سکتے
مجھے حیران کر دیتی ہیں نکتہ دانیاں اس کی
کتاب میں 'تخیل' مونث ہی باندھا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کتابت کی غلطی ہو۔
حسان خان صاحب!
مجاز صاحب کے شہ پاروں کو شریک محفل کرنے پر دلی تشکّر
اس بہت ہی خوب انتخاب پربھی بہت سی داد قبول کیجئے

بالا شعر کے مصرع ثانی میں مرے خیال میں تخیّل کی جگہ
تخئیل ہونا چاہیے (ہو سکتا ہے کہ کتاب میں ہی غلط چھپ گیا ہو )۔

یوں صحیح اور با وزن ہوگا کہ :
مِری تخئیل کے بازو بھی اُس کو چُھو نہیں سکتے
مجھے حیران کر دیتی ہیں نکتہ دانیاں اُس کی

تخیّل مذکر ہےاور اِسی معنی میں تخئیل مؤنث ہے

تخیّل بر وزنِ مجسّم اور مقیّد (فعولن) ہے
اور تخئیل بر وزن تدبیر اور تشکیل ( فِعْلات) ہے
۔۔۔۔۔۔
تشکّر ایک بار پھر سے
بہت شاداں رہیں
 

حسان خان

لائبریرین
بالا شعر کے مصرع ثانی میں مرے خیال میں تخیّل کی جگہ
تخئیل ہونا چاہیے (ہو سکتا ہے کہ کتاب میں ہی غلط چھپ گیا ہو )۔

یوں صحیح اور با وزن ہوگا کہ :
مِری تخئیل کے بازو بھی اُس کو چُھو نہیں سکتے
مجھے حیران کر دیتی ہیں نکتہ دانیاں اُس کی

تخیّل مذکر ہےاور اِسی معنی میں تخئیل مؤنث ہے

تخیّل بر وزنِ مجسّم اور مقیّد (فعولن) ہے
اور تخئیل بر وزن تدبیر اور تشکیل ( فِعْلات) ہے
۔۔۔ ۔۔۔
تشکّر ایک بار پھر سے
بہت شاداں رہیں

آپ نے ٹھیک کہا طارق صاحب، کتاب میں تخئیل ہی درج ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تخئیل اور تخیل دو مختلف الفاظ ہیں۔ تصحیح کے لیے بہت شکریہ۔
 

انتہا

محفلین
خود کو سزائیں دینا محبت کے منافی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات محبت کا اظہار بھی ہوتا ہے، آخر ماں باپ بھی تو اپنے بچوں کو سزائیں دیتے ہی ہیں ناں؟؟؟
 

عسکری

معطل
آپکی اس بات سے وہ جنہیں ہم نے سزا دی وہ اتفاق نہیں کریں گے ۔یہاں معاملہ الٹ ہے ہم نے ماں باپ کو سزا دے رکھی ہے :mrgreen:
 

پپو

محفلین
وہ اک مضراب ہے اور چھیڑ سکتی ہے رگِ جاں کو
وہ چنگاری ہے لیکن پھونک سکتی ہے گلستاں کو
وہ بجلی ہے جلا سکتی ہے ساری بزمِ امکاں کو
ابھی میرے ہی دل تک ہیں شرر سامانیاں اس کی
 
Top