بشیر بدر کسی کی یاد میں پلکیں ذرا بھگو لیتے

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
کسی کی یاد میں پلکیں ذرا بھگو لیتے
اداس رات کی تنہائیوں میں رو لیتے

دکھوں کا بوجھ اکیلے سنبھلتا نہیں ہے
کہیں وہ ملتا تو اس سے لپٹ کے رو لیتے

تمہاری راہ میں شاخوں پہ پھول سوکھ گئے
کبھی ہوا کی طرح اس طرف بھی ہو لیتے

یہ کیا کہ روز وہی چاندنی کا بستر ہو
کبھی تو دھوپ کی چادر بچھا کے سو لیتے

اگر سفر میں ہمارا بھی ہمسفر ہوتا
بڑی خوشی سے انہیں پتھروں پہ سو لیتے
 
زبردست:applause:

ایک سوال ہے۔کیا یہاں انہی نہیں ہونا چاہیے تھا؟؟

اگر سفر میں ہمارا بھی ہمسفر ہوتا
بڑی خوشی سے انہیں پتھروں پہ سو لیتے
 
Top