حزیں صدیقی کسی موج نے ڈبویا ، کسی موج نے ابھارا

مہ جبین

محفلین
کسی موج نے ڈبویا ، کسی موج نے اُبھارا​
اسی کشمکش میں آخر مجھے مل گیا کنارا​
نہ سرِشکِ شمعِ محفل نہ بجھا بجھا شرارا​
وہ چراغِ آرزو ہوں جو نہ جل سکا دوبارا​
ہوا نذر تِیرہ بختی ، شبِ غم کا ہر سہارا​
نہ پلک پہ کوئی آنسو ، نہ فلک پہ کوئی تارا​
مری آرزو کا حاصل مری زیست کا سہارا​
وہی لمحہ زندگی کا ، ترے ساتھ جو گزارا​
مجھے دل کی دھڑکنوں پہ ہوا بارہا یہ دھوکہ​
کہیں پاس ہی سے جیسے مجھے آپ نے پکارا​
تری یاد بھی ستمگر تری ہم خیال نکلی​
کبھی بن گئی سہارا ، کبھی کر گئی کنارا​
کہیں شورشِ جنوں ہے کہیں موجہء سکوں ہے​
یہی زندگی تلاطم یہی زندگی کنارا​
سرِ کوہِ طورِ موسیٰ جسے دیکھ کر ہوئے غش​
کوئی آپ سے یہ پوچھے وہ نظرتھی یا نظارا​
کبھی میرے آنسوؤں کی سنی التجا نہ تم نے​
مری بے زبانیوں نے تمہیں بارہا پکارا​
یہ عجیب ماجرا ہے مرے غم نصیب دل کا​
کہ جو موج لے کے ڈوبی وہی بن گئی کنارا​
حزیں صدیقی​
 
ہوا نذر تِیرہ بختی ، شبِ غم کا ہر سہارا​
نہ پلک پہ کوئی آنسو ، نہ فلک پہ کوئی تارا
واہ!! بیحد عمدہ غزل نذر محفل کی اپ نے۔۔۔۔
آپ کا بہت شکریہ :)
 

سید زبیر

محفلین
مجھے دل کی دھڑکنوں پہ ہوا بارہا یہ دھوکہ
کہیں پاس ہی سے جیسے مجھے آپ نے پکارا
عمدہ کلام سے نہائت عمدہ انتخاب
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب شراکت
تری یاد بھی ستمگر تری ہم خیال نکلی​
کبھی بن گئی سہارا ، کبھی کر گئی کنارا​
 
Top