کرچی کرچی کراچی

طاھر جاوید

محفلین
کرچی کرچی کراچی

سپردگی کا خمیر جسکی سرشت میں تھا
جو وراثتوں میں ملی محبتوں کا امین تھا
جس کو بار بار ہار کر بھی
ہارنے کی کُنجلائِ سے نکلنے کا یقین تھا
وہ میرا کراچی تھا
ہزیمتوں پہ ہزیمتیں بھی
جسے بار بار آ کے نہ ہرا سکیں
وہ آج دیکھوکسقدر
ماضی، حوالوں،اور مثالوں کے شکستہ آِئینوں میں
تازہ شجر کی ڈال پہ سورج کے اُبھرنے پہ
نئے خبرنامے میں اپنے متعلق
کوئی اک خوشی کی خبر ڈھونڈھنے کی لگن میں مگن ہے
وہی کراچی جس نے سپنوں کے حقیقت بننے کی پذیرائِ میں
آنکھیں گنوا دیں مگر۔۔
سپنے دیکھنا نہیں چھوڑا
ھم سے آھستہ آھستہ
اسقدر تباہ ھو رھا ہے
کہ روش سے روش جدا
ہوش سے ہوش بچھڑا ہوا ھے
ھم سب
تیسری دنیا کے باسی ہونے کی پاداش میں
تازہ شجر کی ڈال پہ
سورج کے فشاں ہونے پہ
جو نغمہ بھی گاِییں
وہ نغمہ بے مکاں ہو گا
وہ نغمہ رِایِئگاں ھو گا
ہزیمتوں پہ ہزہمتیں بھی جسے کبہی نہ ہرا سکیں
وہ میرا کراچی تباہ کر دیا گیا ہے
وہ مرا کراچی اب
کراچی کہاں رہا ھے
وہ تو کب سے
ہر طرف بکھرے حیراں لمحوں سے
نکل کر پھیلتے لہو کی صحبت میں ہراساں
ظلمات میں ستارہ جبیں ہونے کی پاداش میں دیکھو
کسقدر فنا کردیا گیا ھے
 
آخری تدوین:
Top