بہزاد لکھنوی کرم چاہتا ہوں، عطا چاہتا ہوں - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
کرم چاہتا ہوں، عطا چاہتا ہوں
دلِ عشق کا مدعا چاہتا ہوں

ستم کرنے والے جفا کرنے والے
وفا کررہا ہوں، وفا چاہتا ہوں

وہی درد تیرا جو ہے جانِ ہستی
اسی درد کی اب دوا چاہتا ہوں

محبت کی دُنیا کو سارے جہاں سے
الگ چاہتا ہوں، جدا چاہتا ہوں

تجھے جو بھی دینا ہو دے دے خدارا
مجھے کیا خبر ہے، میں کیا چاہتا ہوں

میں گھبرا چکا ہوں، ستم سہتے سہتے
نگاہِ کرم آشنا چاہتا ہوں

مسرت کے طالب اور ہوں گے
کہ میں تو غمِ لادوا چاہتا ہوں

جبینِ عقیدت ہے بیتاب میری
ہر اک گام پر نقشِ پا چاہتا ہوں

میں بہزاد ہوں بیخودِ دردِ ہستی
کوئی یہ بتا دے، میں کیا چاہتا ہوں
 
Top