کرب کے شہر سے نکلے تو یہ منظر دیکھا ۔۔۔افضل منہاس

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کرب کے شہر سے نکلے تو یہ منظر دیکھا
ہم کو لوگوں نے بلایا ہمیں چھو کر دیکھا

وہ برسات میں بھیگا تو نگاہیں اٹھیں
یوں لگا ہے کوئی ترشا ہوا پتھر دیکھا

کوئی سایہ بھی نہ سہمے ہوئے گھر سے نکلا
ہم نے ٹوٹی ہوئی دہلیز کو اکثر دیکھا

سوچ کا پیڑ جواں ہو کے بنا ایسا رفیق
ذہن کے قد نے اُسے اپنے برابر دیکھا

جب بھی چاہا ہے کہ ملبوسِ وفا کو چُھو لیں
مثلِ خوشبو کوئی اڑتا ہوا پیکر دیکھا

رقص کرتے ہوئے لمحوں کی زباں گنگ ہوئی
اپنے سینے میں جو اترا ہوا خنجر دیکھا

زندگی اتنی پریشاں ہے یہ سوچا بھی نہ تھا
اس کے اطراف میں شعلوں کا سمندر دیکھا

رات بھر خوف سے چٹخے تھے سحر کی خاطر
صبح دَم خود کو بکھرتے ہوئے در پر دیکھا

آ گئی غم کی ہوا پھر تیرے گیسُو چھو کر
ہم نے ویرانئہِ دل پھر سے معطّر دیکھا

وہ جو اڑتی ہے صدا دشتِ وفا میں افضل
اسی مٹّی میں نہاں درد گوہر دیکھا

(افضل منہاس)
 
Top