علی سردار جعفری کربلا (ایک رجز) - علی سردار جعفری

حسان خان

لائبریرین
پھر العطش کی ہے صدا
جیسے رجز کا زمزمہ
پھر ریگِ صحرا پر رواں
ہے اہلِ دل کا کارواں
نہرِ فرات آتش بجاں
راوی و گنگا خوں چکاں
کوئی یزیدِ وقت ہو
یا شمر ہو یا حرملہ
اس کو خبر ہو یا نہ ہو
روزِ حساب آنے کو ہے
نزدیک ہے روزِ جزا
اے کربلا! اے کربلا!
گونگی نہیں ہے یہ زمیں
گونگا نہیں یہ آسماں
گونگے نہیں حرف و بیاں
گونگی اگر ہے مصلحت
زخموں کو ملتی ہے زباں
وہ خوں جو رزقِ خاک تھا
تابندہ ہے پائندہ ہے
صدیوں کی سفاکی سہی
انسان اب بھی زندہ ہے
ہر ذرۂ پامال میں
دل کے دھڑکنے کی صدا
اے کربلا! اے کربلا!
عرشِ رعونت کے خدا
ارضِ ستم کے دیوتا
یہ ٹین اور لوہے کے بت
یہ سیم و زر کے کبریا
بارود ہے جن کی قبا
راکٹ کی لے جن کی صدا
طوفانِ غم سے بے خبر
یہ کم سواد و بے ہنر
نکلے ہیں لے کے اسلحہ
لیکن جل اٹھی زیرِ پا
ریگِ نواحِ نینویٰ
آندھی ہے مشرق کی ہوا
شعلہ فلسطیں کی فضا
اے کربلا! اے کربلا!
یہ مدرسے، دانش کدے
علم و ہنر کے میکدے
ان میں کہاں سے آ گئے
یہ کرگسوں کے گھونسلے
یہ جہل کی پرچھائیاں
لیتی ہوئی انگڑائیاں
دانشورانِ بے یقیں
غیروں کے دفتر کے امیں
الفاظ کے خواجہ سرا
ان کے تصرف میں نہیں
خونِ بہارِ زندگی
برہم ہے ان سے رنگِ گل
آزردہ ہے بادِ صبا
اے کربلا! اے کربلا!
لیکن یہی دانش کدے
ہیں عشق کے آتش کدے
ہیں حسن کے تابش کدے
پلتے ہیں جن کی گود میں
لے کر انوکھا بانکپن
عصرِ رواں کے کوہکن
میرے جوانانِ چمن
بلبل نوا، شاہیں ادا
اے کربلا! اے کربلا!
اے غم کے فرزندو اٹھو
اے آرزومندو اٹھو
زلفوں کی گلیوں میں رواں
دل کی نسیمِ جاں فزا
ہونٹوں کی کلیوں میں جواں
بوئے گل و بوئے وفا
آنکھوں میں تاروں کی چمک
ماتھوں میں سورج کی دمک
دل میں جمالِ شامِ غم
رخ پر جلالِ بے نوا
گونجی ہوئی زیرِ قدم
تاریخ کی آوازِ پا
شمشیر ہیں دستِ دعا
اے کربلا! اے کربلا!
پیاسوں کے آگے جائیں گے
آئیں گے، لائیں جائیں گے
آسودگانِ جامِ جم
سب صاحبانِ بے کرم
کھل جائے گا سارا بھرم
جھک جائیں گے تیغ و الم
پیشِ سفیرانِ قلم
رخشندہ ہے روحِ حرم
تابندہ ہے روئے صنم
سردار کے شعروں میں ہے
خونِ شہیداں کی ضیا
اے کربلا! اے کربلا!
(علی سردار جعفری)
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ ۔۔۔۔۔ کیا جذب و جنوں کا حامل ہے یہ کلام
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم حسان بھائی
 
Top