کرایہ ، عوام اور میں

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
پتہ نہیں کیوں‌ ہم لوگو کو بتاتیں کرنا ہی کیوں آتی ہے ہم عمل کیوں نہیں‌کرتے کسی دوسرے کا انتظار کیوں‌کرتے رہتے ہیں کہ پہل کوئی کرے پھر ہم بھی اس کا ساتھ دے اگر ہم یہی سوچتے رہے تو پھر یہ بتائے کے پہل کون کرے گا ہم ہر کام میں‌صرف بحث کرنا جانتے ہیں اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتے آج صبح میں جب آفس آنے کے لیے گاڑی میں بیٹھا تو کنڈیکٹر نے کرایہ مانگا میں نے اس کو ساتھ روپے نکال کر دے راجہ بازار سے غریب آباد کے سات روپے ہی بنتے ہیں اور میں نے سیکم Iii اترنا تھا کنڈیکٹر نے کہا سات روپے نہیں دس روپے کرایہ ہے میں‌ایک دم پرشان ہو گیا کل شام کو تو میں سات روپے ہی دے کر گھر گیا تھا یہ ایک رات میں ہی کرایہ بڑ گیا اور وہ بھی سات کی جگہ دس روپے تین روپے کا اصافہ میں نے کہا کرایہ نامہ دیکھاو اس نے کرایہ نامہ بھی دیکھا دیا اب میرے پاس کوئی جواز نہیں‌تھا بحث کرنے کا لیکن میں دس روپے کرایہ دینے کو تیار بھی نہیں‌تھا کیوں کہ یہ ایک دن کی بات نہیں تھی میں‌نے کہا سات روپے دوں گا ورنہ نہیں‌دوں گا اس کے بعد کیا تھا گاڑی میں بیٹھے ہوئے سب لوگ شور کرنا شروع ہو گیا " ارے تم نے کرایہ کیسے زیادہ کر دیا کل تک تو زیادہ نہیں‌ہوا تھا '' گاڑی والے نے کہا ہم کیا کرے حکومت نے ہی کرایہ زیادہ کیا ہے یہ سر اس روٹ کی بات نہیں‌ رالپنڈی میں‌ہر جگہ کرایہ زیادہ ہو گیا ہے اب میں خاموش رہا لیکن باقی سب بولتے رہے میں نے تو اس کو صاف کہاتھا اگر کرایہ لینا ہے تو سات روپے لے لو ورنہ نہیں‌دیتا ہوں باقی سب بھی بات کرتے رہے لیکن بعد میں‌پتہ چلا گاڑی میں‌جتنے لوگ بھی بیٹھے تھے ان سب نے دس دس روپے کرایہ دے دیا تھا بس ایک میں‌ہی تھا جس نے نہیں‌دیا تھا اب میں نے سوچا یہ سب تو اپنے اپنے سٹاپ پر اتر جائے گے پھر میرے خیر نہیں لیکن میں‌کیا کرتا میں نے اس کو سات روپے ہی دے لیکن سب نے پورا کرایہ دیا اب میں اکیلا کیا کروں شام کو واپس جاوں گا تو میں بھی خاموشی سے دس روپے کرایہ دے دوں گا

سب لوگ دوسروں کے کندھے میں رکھ کر توپ کیوں چلاتے ہیں اگر ہم سب اس بات پر ڈٹ جائے کے ہم سات سے زیادہ کرایہ نا دے گے تو ہو سکتا ہے کرایہ کم ہو جائے لیکن کوئی بولتا ہی نہیں ہے اور ہاں کوئی بولے بھی تو کیسے بولے سب کو آفس جانے کی جلدی ہوتی ہے آفس سے دیر ہو جائے تو تب بھی تنخواہ سے کٹوٹی ہوتی ہے گاڑی یا موٹر سائیکل ہر کوئی لے نہیں‌سکتا اس کے بھی اخرجات ہے
کیا کرے اس کا حل کیا نکالے

خرم شہزاد خرم
 

زینب

محفلین
تو آپ پیدل جایا کریں آفس واکبھی ہو جائے گی اور صبح صبح لڑائی بھی نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد سعد

محفلین
ایک خرابی کی طرف آپ نے اشارہ کر دیا۔ اب میں بھی ایک اور خرابی کی طرف اشارہ کر دیتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو (تقریباً) ہمیشہ صرف اپنی ہی مشکلات، مجبوریاں اور پریشانیاں نظر آتی ہیں۔ دوسروں کی تکالیف کے بارے میں ہم لمحہ بھر کے لیے سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ مثلاً ہمیں ٹرانسپورٹر حضرات کا کرایہ بڑھانا تو ظلم نظر آتا ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ آج کل تیل کی قیمت کس تناسب سے بڑھ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ وہ اپنے حق سے زیادہ کرایہ مانگتے ہیں لیکن یہ تو ہم سب بھی کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی دکاندار کسی چیز کی قیمت پر کچھ رعایت کرے تو ہم لوگ راضی نہیں ہوتے بلکہ قیمت میں مزید کمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ مسئلہ وہیں کا وہیں اٹکا ہوا ہے یعنی ہم دوسروں کی تکلیف کا ذرا بھی خیال نہیں کیا کرتے۔ اگر ہم ٹرانسپورٹر یا دکاندار کی مجبوری کا خیال رکھیں گے تو وہ بھی ہماری مجبوریوں کا خیال رکھیں گے۔

آخر میں ایک عدد مفت مشورہ بھی قبول کر لیں۔ آپ سے کس نے کہا ہے کہ آپ لازماً کوئی ایندھن سے چلنے والی سواری ہی خریدیں۔ آپ سائیکل سے بھی تو کام چلا سکتے ہیں۔ شروع میں مشکلات پیش آئیں گی لیکن بعد میں جب عادت پڑ جائے گی تو آپ خود ہی بس کی رفتار سے سائیکل چلاتے ہوئے دفتر جایا کریں گے۔ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ورزش بھی ہوگی، بچت بھی ہوگی اور ماحول کی آلودگی کی شرح میں بھی کچھ کمی آ جائے گی۔ اب یہ نہ کہنا کہ میرے سائیکل چلانے سے کیا فرق پڑ جائے گا جبکہ باقی سب ماحول کو آلودہ کر رہے ہوں۔ آپ نے خود ہی اپنی تحریر میں اپنے لیے یہ بہانہ بنانے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ ;)
 

قیصرانی

لائبریرین
آپ لوگ تو عجیب ہی مسئلے پر بحث کر رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال قبل ڈیرہ غازی خان سے ملتان کا سرکاری کرایہ ساڑھے بائیس روپے جب ہوا کرتا تھا تو ویگن والے پینتیس سے پینتالیس وصول کرتے تھے اور ہر رو میں‌چار سواریاں۔ سرکاری طور پر تین کی اجازت ہوتی تھی اور پھٹہ ممنوع۔ تب کسی کو احتجاج کا خیال تک نہیں آیا تھا۔ سب آرام سے لٹنے پر آمادہ۔ کرایہ پر ایک دو بار تکرار ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ فرنٹ کی دو سیٹوں کی قیمت تین کے برابر ہوتی تھی۔ وہ بھی ڈرائیور کی مرضی کے ساتھ، مفت میں‌ اس کی منت الگ سر پر ہوتی تھی وغیرہ وغیرہ :rolleyes: کنڈکٹر کا دم چھلا لازمی ہوتا تھا۔ جہاں سواری دیکھی، ویگن روک دی گئی۔ حتٰی کہ ویگن کے پیچھے بھی لوگ لٹکے ہوتے تھے کہ اگلے سٹاپ پر سواری اترے گی تو یہ بیٹھ جائیں گے

مزے کی بات کہ ملتان سے آگے بہالپور کے لئے الٹی گنگا بہتی تھی۔ یعنی کہ لوگ پچھلی سیٹ سے بھرے جانے شروع ہوتے تھے اور فرنٹ پر کسی کسی کی ہمت ہوتی تھی کہ بیٹھے۔ تین سواری فی رو اور فرنٹ کی دو ٹکٹیں، وہ بھی کبھی کبھی ڈیڑھ کی قیمت پر مل جاتی تھیں‌ کہ کوئی فرنٹ پر بیٹھنا پسند بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کنڈکٹر کا کوئی تصور بھی نہیں۔ ویگن نان سٹاپ چلتی تھی
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایک خرابی کی طرف آپ نے اشارہ کر دیا۔ اب میں بھی ایک اور خرابی کی طرف اشارہ کر دیتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو (تقریباً) ہمیشہ صرف اپنی ہی مشکلات، مجبوریاں اور پریشانیاں نظر آتی ہیں۔ دوسروں کی تکالیف کے بارے میں ہم لمحہ بھر کے لیے سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ مثلاً ہمیں ٹرانسپورٹر حضرات کا کرایہ بڑھانا تو ظلم نظر آتا ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ آج کل تیل کی قیمت کس تناسب سے بڑھ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ وہ اپنے حق سے زیادہ کرایہ مانگتے ہیں لیکن یہ تو ہم سب بھی کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی دکاندار کسی چیز کی قیمت پر کچھ رعایت کرے تو ہم لوگ راضی نہیں ہوتے بلکہ قیمت میں مزید کمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ مسئلہ وہیں کا وہیں اٹکا ہوا ہے یعنی ہم دوسروں کی تکلیف کا ذرا بھی خیال نہیں کیا کرتے۔ اگر ہم ٹرانسپورٹر یا دکاندار کی مجبوری کا خیال رکھیں گے تو وہ بھی ہماری مجبوریوں کا خیال رکھیں گے۔

آخر میں ایک عدد مفت مشورہ بھی قبول کر لیں۔ آپ سے کس نے کہا ہے کہ آپ لازماً کوئی ایندھن سے چلنے والی سواری ہی خریدیں۔ آپ سائیکل سے بھی تو کام چلا سکتے ہیں۔ شروع میں مشکلات پیش آئیں گی لیکن بعد میں جب عادت پڑ جائے گی تو آپ خود ہی بس کی رفتار سے سائیکل چلاتے ہوئے دفتر جایا کریں گے۔ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ورزش بھی ہوگی، بچت بھی ہوگی اور ماحول کی آلودگی کی شرح میں بھی کچھ کمی آ جائے گی۔ اب یہ نہ کہنا کہ میرے سائیکل چلانے سے کیا فرق پڑ جائے گا جبکہ باقی سب ماحول کو آلودہ کر رہے ہوں۔ آپ نے خود ہی اپنی تحریر میں اپنے لیے یہ بہانہ بنانے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ ;)
جی ہہاں بات تو یہ ٹھیک ہے ہر بندہ اپنی ہی پرشانیوں کا رونا روتا ہے کسی دوسرے کی پرشانی کا خیال نہیں رکھتا ہے کسی کتاب میں میں نے پڑھا تھا اگر ایک انسان کی پرشانی دوسرے کے کندھے پر ڈال دی جائے تو وہ یہی کہے گا کے پہلے والی پرشانی کم تھی لیکن اب زیادہ ہے اس بات سے تو میں اتفاق کرتا ہوں
بات تو یہ بھی ٹھیک ہے وہ کرایہ زیادہ کر رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے جناب تیل کی قیمت زیادہ ہوئی ہے گئیس کی نہیں پھر بھی کرایہ زیادہ کیا ہے :grin: اور دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ لوگ باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کام نہیں کرتے ہیں اب دیکھے نا میرے علاوہ سب نے کرایہ دیا لیکن پھر بھی بات کر رہے تھے یہ کرایہ کیوں زیادہ کیا ہے مزہ تو تب تھا کہ وہ میری طرح کرایہ نا دیتے اور پھر کہتے کہ کرایہ کیوں زیادہ کیا ہے اس کو کم کرو لیکن کچھ بھی نہیں ہوا
آج میں بھی کرایہ زیادہ ہی دے کر آیا ہوں کیوکہ کوئی بولتا ہی نہیں ہے تو پھر کیا کیا جائے
 

دوست

محفلین
مسئلہ یہ ہے کہ دو روپے لیٹر ریٹ‌ بڑھتا ہے تو یہ لوگ دو روپے سواری بڑھا دیتے ہیں اب بتائیے ظلم کس پر ہوا؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
آپ لوگ تو عجیب ہی مسئلے پر بحث کر رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال قبل ڈیرہ غازی خان سے ملتان کا سرکاری کرایہ ساڑھے بائیس روپے جب ہوا کرتا تھا تو ویگن والے پینتیس سے پینتالیس وصول کرتے تھے اور ہر رو میں‌چار سواریاں۔ سرکاری طور پر تین کی اجازت ہوتی تھی اور پھٹہ ممنوع۔ تب کسی کو احتجاج کا خیال تک نہیں آیا تھا۔ سب آرام سے لٹنے پر آمادہ۔ کرایہ پر ایک دو بار تکرار ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ فرنٹ کی دو سیٹوں کی قیمت تین کے برابر ہوتی تھی۔ وہ بھی ڈرائیور کی مرضی کے ساتھ، مفت میں‌ اس کی منت الگ سر پر ہوتی تھی وغیرہ وغیرہ :rolleyes: کنڈکٹر کا دم چھلا لازمی ہوتا تھا۔ جہاں سواری دیکھی، ویگن روک دی گئی۔ حتٰی کہ ویگن کے پیچھے بھی لوگ لٹکے ہوتے تھے کہ اگلے سٹاپ پر سواری اترے گی تو یہ بیٹھ جائیں گے

مزے کی بات کہ ملتان سے آگے بہالپور کے لئے الٹی گنگا بہتی تھی۔ یعنی کہ لوگ پچھلی سیٹ سے بھرے جانے شروع ہوتے تھے اور فرنٹ پر کسی کسی کی ہمت ہوتی تھی کہ بیٹھے۔ تین سواری فی رو اور فرنٹ کی دو ٹکٹیں، وہ بھی کبھی کبھی ڈیڑھ کی قیمت پر مل جاتی تھیں‌ کہ کوئی فرنٹ پر بیٹھنا پسند بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کنڈکٹر کا کوئی تصور بھی نہیں۔ ویگن نان سٹاپ چلتی تھی


بھائی بات تو آپ کی بھی ٹھیک ہے یہاں جو بھی بات کرتا ہے ٹھیک ہی کرتا ہے لیکن اس پر سوچتا کوئی نہیں ہے عمل کوئی نہیں کرتا ہے آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کروں گا کہ یہاں احتیجاج کوئی نہیں کرتا ہے احتیجاج تو ہر دور میں ہوتا رہا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا کوئی تیار ہی نہیں ہوتا ہے اس کی بھی ایک وجہ ہے کوئی تیار کیوں نہیں ہوتا ہے اور یہ بات بھی ٹھیک ہے احتیجاج بھی کسی حد تک دم تور کیا ہے اب کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ احتیجاج کرنے نکلے اب مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بلکہ ہم سب احتیجاج کرے یا اپنے پیٹ کی فکر کرے ہم تو یہ سوچتے ہیں اگر ایک دن احتیجاج پر لگا دیا تو شام کو گھر کیا لے کر جائے گے بچوں کو کیا دے گے وہ کھانا کیسے کھائے گے اب تو اس بات کی فکر لگی رہتی ہے مجھے ای بات پر ایک کہانی یاد یا گی میں نے سنی ہوئی ہے پڑھی نہیں ہے کہتے دور میں ایک ظالم بادشاہ تھا اس نے ایک دریا پر پل بنایا اور اس پر سے گزرنے والوں پر ٹیکس لگا دیا کہ جو بھی یہاں سے گزرے گا اس دور کے حساب سے کوئی ٹیکس تھا ہم دس روپے فرض کر لیتے ہیں بادشاہ نے ٹیکس اس لے لگایا تھا کہ عوام میرے پاس آئے اور احتیجاج کرے لیکن کوئی بھی نہیں کیا احتیجاج کے لیے اس نے غصہ میں آ کر ٹیکس 50 روپے کر دیا پھر بھی کوئی نہیں آیا احتیجاج کرنے کے لیے بادشاہ کو اور بھی غصہ آیا تو بادشاہ نے حکم جاری کیا اس پُل سے جو گزرے اس سے 50 روپے ٹیکس بھی لیا جائے اور ساتھ ایک جوُتا بھی مارا جائے پھر بھی کوئی احتجاج کے لیے نہیں آیا تو پھر بادشاہ نے جُوتے ایک سے پانچ کر دیے کچھ دینے گزرے تو کچھ لوگ بادشاہ کے پاس جمع ہوئے باد شاہ بہت خوش اب یہ احتیجاج کرے گے بادشاہ نے پوچھا بولو کیوں آئے ہو ان میں اسے ایک بولا جن کو انھوں نے لیڈر بنایا تھا کہنے لگا بادشاہ سلامت آپ نے پُل پر سے گزرنے کے لیے ٹیکس بھی لگایا ہے اور پانچ جُوتے بھی مارنے کا کہا ہے اس پر بادشاہ نے کہا ہاں تو پھر اس کو کم کر دوں کیا ؟
وہ لیڈر بولا نہیں بادشاہ جی کم نا کرے بلکے آپ وہاں جوُتے مارنے والے لوگو کی تعداد میں اصافہ کر دے ایک بندے سے یہ کام دیر میں ہوتا ہے تو ہم کو دیر ہو جاتی ہے ہم چاہتے ہیں جلدی جلدی ہم سے ٹیکس لیا جائے اور جُوتے مارے جائے تاکہ ہم جلد سے جلد اپنے کاموں پر چلے جائے

لگتا ہے ہماری بھی یہی حالت ہو گی ہے
 

محمد سعد

محفلین
ہمیں اس بات پر بھی سوچنا چاہیے کہ اگر آج تھوڑی سی محنت کر کے ہم یہ مسائل حل کر لیتے ہیں تو ہماری باقی کی پوری زندگی آرام و سکون سے گزرے گی۔ اور میرے خیال میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جی ہاں اگر ہم یہ سوچ کر کام کرے کہ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسل کو اس کا فائدہ ہو گا تو پھر بھی بہتر ہو گا
 

قیصرانی

لائبریرین
بھائی جی، دو روپے لیٹر کے پیچھے دو روپے تو کرایہ بڑھایا جاتا ہے، عموماً یہ رقم پولیس کی منتھلیوں‌میں‌ اور دیگر ایکسٹرا کریکولر اخراجات میں‌ نکل جاتی ہوگی :cool:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم مجھے مشورہ تو دینا نہیں آتا پر آپ کچھ لوگ مل کر ایک وین کرائے پر لے لیں۔



تعبیر بات تو آپ کی کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے نا اگر تو ہم نے صرف اپنے ہی فائدے کا سوچنا ہے تو پھر سائیکل بہت بہتر ہے نا کچھ خرچ آئے گا اور نا کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوگا آرام سے گھر اور آرام سے آفس ۔ بات پھر کبوتر والی ہی ہو جائےگی جو بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے میں نے اپنا مسئلہ یہاں اس لے رکھا ہے کہ مجھے پتہ ہے میری طرح بہت سارے دوستوں کا یہی مسئلہ ہے میں تو کوشش کرتا ہون بولنے کی لیکن کیا کروں میں اکیلا تو کچھ نہین کر سکتا خیر اب جو ہو گا دیکھا جائے گاشکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بھائی جی، دو روپے لیٹر کے پیچھے دو روپے تو کرایہ بڑھایا جاتا ہے، عموماً یہ رقم پولیس کی منتھلیوں‌میں‌ اور دیگر ایکسٹرا کریکولر اخراجات میں‌ نکل جاتی ہوگی :cool:



جی قیصرانی بھائی آپ نے یہ بات 100 فیصد ٹھیک کہی ہے رو روپے لیٹر کےپیچھے عو روپے کرایہ سواری کا بڑھاتے ہیں اس طرح ایک چکر کے 20 روپے اصافی آتے ہیں اور آنے جانے کے 40 روپے اصافی آتے ہیں میں راجہ بازار سے غریب آباد تک کی بات کر رہا ہوں یہاں ہر مہنے کی 5 تاریخ کو بہت سارے پولیس والے کھڑاے ہو جاتے ہیں اور گاڑیوں کے نمبر لکھنا شروع کر دیتے ہیں جو پیسے دیتا ہے اس کو جانے دیتے ہیں جو پیسے نہیں دیتا ہے اس سے گاڑی کے کاغذات مانگتے ہیں جو کے بہت کم لوگو کے پاس ہو تے ہیں اور یہ سلسلہ ہر مہنے چلتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں خیر جو پوچھنے والے ہیں وہی تو سب کرتے ہیں

میں نے ایک ڈرامہ دیکھا تھا اس میں "امان اللہ" نے ایک بات کی تھی کہ " پولیس والوں کی نوکری بہت اچھی ہے دن کو وردی پہن کر لوٹ لیتے ہیں اور رات کو ڈاکہ ڈال کر لوٹ لیتے ہیں اس پر "امان اللہ صاحب " نے ایک واقعہ بھی سنایا کہتے ہیں " ایک دفعہ ہمارے علاقے میں ایک آفسر کے گھر اس کے بچے کی سالگیرہ تھی بہت سارے گفٹ دیے گے اس میں بجے کو ایک کھلونا دیا جو کلاشنکوف کی طرح کا تھا رات بہت ہو گی سب لوگ چلے گے گھر والےہی گھر میں تھے کے رات 2 بجے کے قریب 2 ڈاکو آگے آفسر شریف سا انسان تھا وہ ڈر گیا اس دوران اس کے ہاتھ میں بجے کا کھلونا کلاشنکوف آ گیا اور اسی کو ڈاکوں کی طرف کر کے کہا اگر آگے آئے تو مار دوں گا ڈاکو کلاشنکوف دیکھ کر بھاگ گے وہ بہت پرشان تھے کہ اگر کچھ ہو جاتا تو کیا کرتے ابھی رات کے 3 ہی بجے تھے کے دروازے پر دستک ہوئی ڈرتے درتے دروازہ کھولا تو باہر پولیس والے تھے اندر داخل ہو گے ہمیں رپوٹ ملی ہے آپ کے گھر ناجائز اسئلہ ہے آپ کے گھر کی تلاشی لی جائے گی
 

محمد سعد

محفلین
جی قیصرانی بھائی آپ نے یہ بات 100 فیصد ٹھیک کہی ہے رو روپے لیٹر کےپیچھے عو روپے کرایہ سواری کا بڑھاتے ہیں اس طرح ایک چکر کے 20 روپے اصافی آتے ہیں اور آنے جانے کے 40 روپے اصافی آتے ہیں میں راجہ بازار سے غریب آباد تک کی بات کر رہا ہوں یہاں ہر مہنے کی 5 تاریخ کو بہت سارے پولیس والے کھڑاے ہو جاتے ہیں اور گاڑیوں کے نمبر لکھنا شروع کر دیتے ہیں جو پیسے دیتا ہے اس کو جانے دیتے ہیں جو پیسے نہیں دیتا ہے اس سے گاڑی کے کاغذات مانگتے ہیں جو کے بہت کم لوگو کے پاس ہو تے ہیں اور یہ سلسلہ ہر مہنے چلتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں خیر جو پوچھنے والے ہیں وہی تو سب کرتے ہیں

میں نے ایک ڈرامہ دیکھا تھا اس میں "امان اللہ" نے ایک بات کی تھی کہ " پولیس والوں کی نوکری بہت اچھی ہے دن کو وردی پہن کر لوٹ لیتے ہیں اور رات کو ڈاکہ ڈال کر لوٹ لیتے ہیں اس پر "امان اللہ صاحب " نے ایک واقعہ بھی سنایا کہتے ہیں " ایک دفعہ ہمارے علاقے میں ایک آفسر کے گھر اس کے بچے کی سالگیرہ تھی بہت سارے گفٹ دیے گے اس میں بجے کو ایک کھلونا دیا جو کلاشنکوف کی طرح کا تھا رات بہت ہو گی سب لوگ چلے گے گھر والےہی گھر میں تھے کے رات 2 بجے کے قریب 2 ڈاکو آگے آفسر شریف سا انسان تھا وہ ڈر گیا اس دوران اس کے ہاتھ میں بجے کا کھلونا کلاشنکوف آ گیا اور اسی کو ڈاکوں کی طرف کر کے کہا اگر آگے آئے تو مار دوں گا ڈاکو کلاشنکوف دیکھ کر بھاگ گے وہ بہت پرشان تھے کہ اگر کچھ ہو جاتا تو کیا کرتے ابھی رات کے 3 ہی بجے تھے کے دروازے پر دستک ہوئی ڈرتے درتے دروازہ کھولا تو باہر پولیس والے تھے اندر داخل ہو گے ہمیں رپوٹ ملی ہے آپ کے گھر ناجائز اسئلہ ہے آپ کے گھر کی تلاشی لی جائے گی
یہ بھی آپ نے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کا بھی حل ہونا چاہیے۔ اور مسئلے کے حل کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے مسئلے کی وجوہات کا پتا لگانا۔ اور میرے خیال میں اس مسئلے کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ پولیس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنی سہولیات فوج کو ملتی ہیں اتنی ہی پولیس کو بھی فراہم کی جائیں۔ جب ایک پولیس کا سپاہی دیکھے گا کہ وہ ایمانداری اور شرافت کے ساتھ دو وقت کی روٹی بھی نہیں کما سکتا تو وہ ڈاکو نہیں بنے گا تو اور کیا بنے گا؟
 

تعبیر

محفلین
تعبیر بات تو آپ کی کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے نا اگر تو ہم نے صرف اپنے ہی فائدے کا سوچنا ہے تو پھر سائیکل بہت بہتر ہے نا کچھ خرچ آئے گا اور نا کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوگا آرام سے گھر اور آرام سے آفس ۔ بات پھر کبوتر والی ہی ہو جائےگی جو بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے میں نے اپنا مسئلہ یہاں اس لے رکھا ہے کہ مجھے پتہ ہے میری طرح بہت سارے دوستوں کا یہی مسئلہ ہے میں تو کوشش کرتا ہون بولنے کی لیکن کیا کروں میں اکیلا تو کچھ نہین کر سکتا خیر اب جو ہو گا دیکھا جائے گاشکریہ


آپ نے خود ہی تو کہا کہ ہماری عوام کا بھی بادشاہ والی کہانی والا حال ہے سو کوئی کچھ نہیں بولے گا۔مجھے یاد ہے جب میں پاکستان میں تھی تو ایک دفعہ گوشت بہت مہنگا تھا ۔پر کسی کو کوئی فرق نہ پڑا سب بڑے ارام سے خرید رہے تھے جبکہ سب چاہتے تو کچھ وقت کے لیے دال روٹی یا مرغی پر گزارہ کر سکتے تھے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ بھی آپ نے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کا بھی حل ہونا چاہیے۔ اور مسئلے کے حل کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے مسئلے کی وجوہات کا پتا لگانا۔ اور میرے خیال میں اس مسئلے کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ پولیس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنی سہولیات فوج کو ملتی ہیں اتنی ہی پولیس کو بھی فراہم کی جائیں۔ جب ایک پولیس کا سپاہی دیکھے گا کہ وہ ایمانداری اور شرافت کے ساتھ دو وقت کی روٹی بھی نہیں کما سکتا تو وہ ڈاکو نہیں بنے گا تو اور کیا بنے گا؟



میرا ایک بھائی پولیس میں بھرتی ہو گیا ہم سب گھر والے اس کا مزاق اڑاتے تھے کہ اب تم بھی رشوت لیا کرو گے تمہارا بھی سب پولیس والوں جیسا حال ہوگا پیٹ نکل آئے گا تو وہ کہتا تھا ہر بندے کا اپنا اپنا ضمیر ہوتا ہے میں اپنے ضمیر کو کبھی نہیں ماروں گا وہ سنجیدہ ہو جاتا تھا اب بھی بات کرے تو وہ سنجیدہ ہو جاتا تھا جب اس کی ٹریئنگ شروع ہوئی تو وہ ایک مہنے کے بعد آتا تھا گھر میں ہم سب بھائیوں سے اس کی صحت سب سے اچھی تھی اب بھی ہے لیکن پہلے والی نہیں رہی 6 ماہ تک اس نے ٹریئنگ کی اس کے چہرے سے ہی پتہ چل گیا وہ خوش نہیں ہے ایک دن میں نے اس سے پوچھا کیوں بھائی کیا مسئلہ ہے کیوں پرشان پرشان رہتے ہو کہتا ہے بھائی آپ کو تو پتہ ہے میں کیا سوچ کر پولیس میں ہوا تھا لگتا ہے میرا مقصد پورا نہیں ہو گا میں نے پوچھا وہ کیوں کہتا ہے بھائی سب سے پہلے رشوت لینے اور دینے کا سلسلہ ٹرینگ سے ہی شروع ہو جاتا ہے چھٹی لینے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں کہی جانا ہو تو پھر بھی پیسے دینے پڑتے ہیں سزا کم کروانے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں یہ سب سلسلہ وہی سے شروع ہو گیا ہے کہتا ہے
ایک دین ہمارے استاد جو ہم کو ٹریئنگ کرواتے ہیں ان سے ایک لڑکے نے پوچھا سر رشوت لینے اور دینے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں لینی چاہے یا نہیں۔ کہنے لگا میرے خیال میں تھا کہ استاد صاحب بہت جزباتی ہو جائے گے اس سوال پر اور ہم سب کو بہت سمجھائے گے لیکن استاد صاحب نے جواب دیا دیکھ جس کا آپ کام کر رہے ہیں اگر تو کام ہو جاتا ہے اور وہ آدمی اپنی خوشی سے کچھ دیتا ہے تو وہ لے لو لیکن اس کو مجبور نا کرو
یعنی رشوت لینے سے روکا ہی نہیں جاتا ہے آج کل وہ ایک گاوں میں ہوتا ہے آزاد کشمیر کی طرح اس کو اسلام آباد نہیں رکھا گیا پتہ نہیں کیوں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
آپ نے خود ہی تو کہا کہ ہماری عوام کا بھی بادشاہ والی کہانی والا حال ہے سو کوئی کچھ نہیں بولے گا۔مجھے یاد ہے جب میں پاکستان میں تھی تو ایک دفعہ گوشت بہت مہنگا تھا ۔پر کسی کو کوئی فرق نہ پڑا سب بڑے ارام سے خرید رہے تھے جبکہ سب چاہتے تو کچھ وقت کے لیے دال روٹی یا مرغی پر گزارہ کر سکتے تھے۔



تعبیر آپی بولتے تو سب ہیں سب شور مچاتے ہیں لیکن گھر میں بیٹھ کر جیسے اب میں یہاں کتنی باتیں کر رہا ہوں مزہ تو تب ہے جب عمل کیا جائے باہر نکل کر شور کیا جائے تاکہ اس کا کچھ حل بھی نکلے
 
Top