کراچی لاہور موٹروے سمیت 4 نئے ہائی وے بنانے کا منصوبہ تیار

news1139-580x375.jpg

http://www.saach.tv/2014/01/13/news5-281/
 
میرے خیال میں ان سب میں سے پاک چین شاہراہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اللہ کرے یہ سارے منصوبے بروقت مکمل ہو جائیں اور کسی حادثے کا شکار نا ہوں
 
مجھے یوں لگتا ہے کہ آپ کا مراسلہ غیر متعلقہ ہے :p
جب سے یہ حکومت آئی ہے، پاکستان میں لاکھوں میگا واٹ کے منصوبوں کے ایم او یوز سائن ہورے ہیں، چائنہ ، جرمن، انڈیا، برطانیہ امریکہ غرضیکہ بیشمار ملکوں کے دورے بمعہ اہل و عیال ہورہے ہیں۔۔۔میں تو بہت خوش تھا کہ چلو کچھ کر رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہی کچھ ہوگا اور پلیٹوں چھری کانٹوں کی صدائیں ہی سنتے رہیں گے کھانا نشتا۔۔۔۔۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
تیسرے حسن ابدال تا مانسہرہ منصوبے کی مارکنگ تو گزشتہ دو سال سے ہو چکی ہے مگر کوئی حرکت نظر نہیں آتی، ہماری گاؤں میں واقع تھوڑی سی زمین بھی اسی منصوبہ کی زد میں آ رہی ہے اور سنا ہے پھر اچھی ادئیگی ہو گی مگر کب پتا نہیں :):rolleyes:
 
تیسرے حسن ابدال تا مانسہرہ منصوبے کی مارکنگ تو گزشتہ دو سال سے ہو چکی ہے مگر کوئی حرکت نظر نہیں آتی، ہماری گاؤں میں واقع تھوڑی سی زمین بھی اسی منصوبہ کی زد میں آ رہی ہے اور سنا ہے پھر اچھی ادئیگی ہو گی مگر کب پتا نہیں :):rolleyes:
اصل مسئلہ فنڈ رلیز کرنے کا ہوتا ہے، حکومت کی سنجیدگی اسی وقت ثابت ہوگی جب حکومت اس کام کے لئے فنڈ رلیز کریگی۔
 
اس کا کیا فائدہ ہو گا؟
بقول وزیراعظم یہ خطے میں گیم چینجر ثابت ہوگا :) جہاں تک میں سمجھا ہوں چین اور وسطی ایشیا کے ممالک کو گرم پانیوں کا راستہ پاکستان کے ذریعے ملے گا اور اس مواصلاتی سہولت کو پاکستان اپنے حق میں استعمال کرے گا۔ آپ کے پاس کوئی مزید یا بہتر معلومات ہیں تو ضرور شریک کیجئے۔
 

زیک

مسافر
چین کی زیادہ آبادی اور صنعت اس کے مشرقی حصے میں ہے۔ سنکیانگ کافی بڑا علاقہ ہے مگر پہاڑی اور صحرائی۔ جو 21 ملین لوگ وہاں رہتے ہیں وہ بہت بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا شمالی علاقہ بھی پہاڑی ہے۔ اس شاہراہ کو بنانے اور مرمت کرتے رہنے پر کافی پیسے لگیں گے۔ کیا وہ قیمت تجارت سے وصول ہو جائے گی؟
 
چین کی زیادہ آبادی اور صنعت اس کے مشرقی حصے میں ہے۔ سنکیانگ کافی بڑا علاقہ ہے مگر پہاڑی اور صحرائی۔ جو 21 ملین لوگ وہاں رہتے ہیں وہ بہت بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا شمالی علاقہ بھی پہاڑی ہے۔ اس شاہراہ کو بنانے اور مرمت کرتے رہنے پر کافی پیسے لگیں گے۔ کیا وہ قیمت تجارت سے وصول ہو جائے گی؟
اس بات کا جواب تو منصوبہ بندی کرنے والوں کے پاس ہوگا۔ ویسے مجھے امید ہے کہ منصوبہ بندی کرنے والوں نے اپکے نکات کو زہن میں رکھا ہوگا۔ ویسے کامران خان نے اپنے تجزئیے میں اس منصوبے کی کافی تعریف کی تھی شائد کچھ ماہرین بھی آئے تھے اسکے شو میں جن کے نام مجھے یاد نہیں۔
 
بقول وزیراعظم یہ خطے میں گیم چینجر ثابت ہوگا :) جہاں تک میں سمجھا ہوں چین اور وسطی ایشیا کے ممالک کو گرم پانیوں کا راستہ پاکستان کے ذریعے ملے گا اور اس مواصلاتی سہولت کو پاکستان اپنے حق میں استعمال کرے گا۔ آپ کے پاس کوئی مزید یا بہتر معلومات ہیں تو ضرور شریک کیجئے۔
منصوبہ بلاشبہ گیم جینجر ثابت ہوگا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک صرف میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگ تک ہی بات پہنچی ہے وہاں چاہنہ میں۔۔۔اور یہاں حکومت یوں داد وصول کرتی پھر رہی ہے جیسے پراجیکٹ تکمیل تک بھی پہنچ گیا۔۔۔۔ابھی کوئی کنٹریکٹ تو ہوا تک نہیں۔
 
پلیٹوں اور کٹلری کی صدائیں سن رہے ہیں مگر کھانا ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ ۔۔الیکشن کے بعد نون لیگ کی آنیاں جانیاں
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کراچی لاہور موٹر وے منصوبہ کی موبائلایزیشن شروع ہے اور اس میں سے 145 کلومیٹر کا ایک سیکشن ہماری کمپنی کو مل چکا ہے چونکہ میں اس کمپنی میں ملازم ہو اس لئے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتا دوں :)
 
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کراچی لاہور موٹر وے منصوبہ کی موبائلایزیشن شروع ہے اور اس میں سے 145 کلومیٹر کا ایک سیکشن ہماری کمپنی کو مل چکا ہے چونکہ میں اس کمپنی میں ملازم ہو اس لئے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتا دوں :)
الحمدللہ، کچھ نا کچھ تو ہورہا ہے۔
 

اسد

محفلین
کیا یہ بات کسی بڑے اخبار میں بھی شائع ہوئی ہے؟ کسی حکومتی عہدیدار نے اس کا اعلان کیا ہے؟ مجھے تو اس میں کچھ خبر (News) بھی نظر نہیں آ رہی، نواز حکومت کے آنے پر ہی سب کو معلوم تھا کہ اب نئی شاہراہوں کے منصوبے بنیں گے اور ہائی وے اتھارٹی اور ورکس ڈیپارٹمنٹس کے لوگوں کو اپنی تنخواہوں کا کچھ حصہ حلال کر نے کا موقعہ ملے گا۔ ویسے تو پاکستان میں حکومتی ملازمین کا اپنا کام کرنا بھی خبر ہوتی ہے، اس لحاظ سے یہ ایک خبر ہے۔

جہاں تک ان چار شاہراہوں کا ذکر ہے، یہ تمام پرانے منصوبے ہیں۔ خنجراب-گوادر موٹر وے کے منصوبے کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اگر لاہور-کراچی شاہراہ کی موبیلائزیشن شروع ہو چکی ہے تو منصوبہ بندی کافی پہلے ہو چکی تھی۔ مظفرآباد-منگلا کا ایک منصوبہ خنجراب-گوادر شاہراہ کے ذیلی منصوبہ‌جات میں بھی شامل تھا، کیا یہ وہی ہے یا کوئی اور؟ حسن ابدال-مانسہرہ منصوبہ وہ چیز ہے جس کا جھانسا دے کر پچھلی حکومتیں ہزارہ کا بجٹ کھاتی رہی ہیں۔ پہلے چند سال ایبٹ آباد سے گزرنے والے شاہراہِ قراقرم کے حصے کی چوڑائی اور مرمت پر کم پیسہ خرچ کیا گیا کہ نئی شاہراہ کے منصوبے کے لئے پیسہ چاہئیے تاکہ وہ جلد از جلد مکمل ہو جائے اور اب چند سال سے وہ بھی نہین ہو رہا۔

میرا خیال ہے کہ یہ ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے خبروں میں رہنے کی کوشش ہے۔
اس کا کیا فائدہ ہو گا؟
یہ پاکستان ہے، اگر ہم مالی فائدہ/نقصان کی بنیاد پر فیصلے کریں تو پورا پاکستان چین یا امریکی کارپوریشنز کو ٹھیکے پر دے دینا چاہئیے۔ بجلی نہ چلی جائے، میں بعد میں جواب دیتا ہوں۔
 

اسد

محفلین
اس کا کیا فائدہ ہو گا؟
چین سے ہمارے تعلقات نسبتاً معمول پر آ جائیں گے۔ پچھلی حکومت نے قراقرم ہائی وے کو جس طرح پانی میں غرق کیا تھا اس سے تعلقات متاثر ہوئے تھے، چاہے اس کا اظہار نہ ہوا ہو۔
چین کی زیادہ آبادی اور صنعت اس کے مشرقی حصے میں ہے۔ سنکیانگ کافی بڑا علاقہ ہے مگر پہاڑی اور صحرائی۔ جو 21 ملین لوگ وہاں رہتے ہیں وہ بہت بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا شمالی علاقہ بھی پہاڑی ہے۔ اس شاہراہ کو بنانے اور مرمت کرتے رہنے پر کافی پیسے لگیں گے۔ کیا وہ قیمت تجارت سے وصول ہو جائے گی؟
جغرافیے پر ہمارا زور نہیں چلتا۔ پاکستان اور چین کی سرحد قراقرم میں ہے، اس کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ کہتے ہیں کہ چین کی کوشش ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک کی مغربی درآمدات گوادر سے پاکستان کے راستے کاشغر لائی جائیں اور وہاں سے آگے جائیں۔ گوادر کی بندرگاہ بھی چینی ادارے کے زیر انتظام کام کرے گی۔
دیامر/بھاشا ڈیم کی وجہ سے شاہراہِ قراقرم کا کچھ حصہ زیرِ آب آ جائے گا اور یہ شاہراہ متبادل کے طور پر استعمال ہو سکے گی۔ اس وقت بھی کاغان سے چلاس کی متبادل سڑک موجود ہے، لیکن وہ بھی درہ بابوسر پر قریباً چھ مہینے برف کی وجہ سے بند ہوتی ہے۔ نئی شاہراہ یہاں بھی سرنگ میں سے گزرے گی۔

ابھی تک قراقرم ہائی وے تقریباً چھ مہینے کھلی ہوتی ہے، جبکہ نئی شاہراہ سرنگ کی وجہ سے پورے سال کھلی رہے گی۔ پاکستان اور چین کے درمیان تین درے ایسے ہیں جن سے سڑک گزر سکتی ہے، خنجراب ان میں سے سب سے زیادہ عرصہ (تقریباً چھ مہینے) برف میں ڈھکا ہوتا ہے اور سب سے مشرق میں ہے۔ دوسرے درے افغانستان سے نسبتاً قریب ہیں اور ساٹھ/ستّر کی دہائی میں روسی خطرے کے باعث خنجراب کا انتخاب کیا گیا تھا۔
 
کیا یہ بات کسی بڑے اخبار میں بھی شائع ہوئی ہے؟ کسی حکومتی عہدیدار نے اس کا اعلان کیا ہے؟ مجھے تو اس میں کچھ خبر (News) بھی نظر نہیں آ رہی، نواز حکومت کے آنے پر ہی سب کو معلوم تھا کہ اب نئی شاہراہوں کے منصوبے بنیں گے اور ہائی وے اتھارٹی اور ورکس ڈیپارٹمنٹس کے لوگوں کو اپنی تنخواہوں کا کچھ حصہ حلال کر نے کا موقعہ ملے گا۔ ویسے تو پاکستان میں حکومتی ملازمین کا اپنا کام کرنا بھی خبر ہوتی ہے، اس لحاظ سے یہ ایک خبر ہے۔

جہاں تک ان چار شاہراہوں کا ذکر ہے، یہ تمام پرانے منصوبے ہیں۔ خنجراب-گوادر موٹر وے کے منصوبے کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اگر لاہور-کراچی شاہراہ کی موبیلائزیشن شروع ہو چکی ہے تو منصوبہ بندی کافی پہلے ہو چکی تھی۔ مظفرآباد-منگلا کا ایک منصوبہ خنجراب-گوادر شاہراہ کے ذیلی منصوبہ‌جات میں بھی شامل تھا، کیا یہ وہی ہے یا کوئی اور؟ حسن ابدال-مانسہرہ منصوبہ وہ چیز ہے جس کا جھانسا دے کر پچھلی حکومتیں ہزارہ کا بجٹ کھاتی رہی ہیں۔ پہلے چند سال ایبٹ آباد سے گزرنے والے شاہراہِ قراقرم کے حصے کی چوڑائی اور مرمت پر کم پیسہ خرچ کیا گیا کہ نئی شاہراہ کے منصوبے کے لئے پیسہ چاہئیے تاکہ وہ جلد از جلد مکمل ہو جائے اور اب چند سال سے وہ بھی نہین ہو رہا۔

میرا خیال ہے کہ یہ ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے خبروں میں رہنے کی کوشش ہے۔

یہ پاکستان ہے، اگر ہم مالی فائدہ/نقصان کی بنیاد پر فیصلے کریں تو پورا پاکستان چین یا امریکی کارپوریشنز کو ٹھیکے پر دے دینا چاہئیے۔ بجلی نہ چلی جائے، میں بعد میں جواب دیتا ہوں۔
جناب جب بھی کوئی بڑا منصوبہ بنتا ہے تو اس کی کاغذی کاراوئی میں کافی وقت صرف ہوتا ہے اس وقت میں جس پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں اس کی منظوری 2010 میں ہوئی تھی اور یہ پراجیکٹ فروری 2012 میں شروع ہوا جبکہ یہ پراجیٹ63 ملین کا ہے آپ خود سوچیں اگر پراجیکٹ 400 ملین کا ہو تو اس کی کاغذی کاروائی میں کتنا وقت صرف ہو گا
 
Top