کتاب"تھانے سے سفارت تک " سے اقتباس : خان عبدالغفار خان معروف بہ باچا خان

سید زبیر

محفلین
کتاب"تھانے سے سفارت تک " سے اقتباس خان عبدالغفار خان معروف بہ باچا خان

" سال پیدائش 1890 بمقام اتمانزئی ضلع چارسدہ ، تاریخ وفات 20 جنوری 1988 مزار بقام جلال آباد 'افغانستان بانی خدائی خدمت گار تحریک1930)

سال تو یاد نہیں مگر ہم بہت چھوٹے تھے ڈم کلہ جو آج کل صابر آباد (ضلع کرک، خیبر پختون خوا) کےنام سے موسوم ہے ،ہم اپنے گھر سے ملحقہ مسجد میں قران شریف پڑھتے تھے مولوی صاحب امیر بادشاہ تھے جو والد صاحب کے بچپن کے دوست بھی تھے ایک دن کچھ دور مقام زیبئی جہاں آج کل پانی کا ایک ڈیم (بند) بنا ہوا ہے باچا خان جلسہ کرہے تھے سرخ جھنڈوں کا ایک سیلاب تھا ایسا سرخ سیلاب ایک بار پھر افغان طورخم پر اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ کے زمانے میں دیکھنے میں آیا تھا جسے بابرک کارمل نے پھیلایا تھا بابرک کارمل حزبِ دیموکریتک خلق افغانستان کے پرچم دھڑے کے لیڈر تھے جن کو کچھ عرصے بعد سوویٹ یونین(شوروی) کی سرخٰ فوجوں کے ٹینکوں پر سوار کابل لا کر وہاں کے تخت پر بٹھایا گیا تھا ۔ ڈم کلہ میں اُس دن سنا کہ باچا خان کے ہاتھ گھٹنوں سے نیچے تک پہنچتے ہیں اور ایسے شخص بزرگ ہوتے ہیں اِس بزرگ کو دیکھنے کے لیے ہم دوڑتے ہوئے زیبئی پہنچے مگر بے پناہ ہجوم کی وجہ سے وہ لمبے ہاتھ ہم دیکھنے سے محروم رہے۔ اور ساتھ ہی بزرگ کو بھی نہ دیکھ سکے، واپس آئے تو مولوی صاحب نے کہا ' تم لوگ سرکار کے دشمن کے جلسے میں گئے ہو تم لوگوں کا والد سرکار کا پنشن خوار ہے اگر سرکار کو تم لوگوں کی حرکتوں کا علم ہو گیا تو پنشن بند ہو جائے گی ' یہ صرف دھمکی تھی کہ دوبارہ ہر قسم کے جلسے جلوسوں سے باز رہیں اس سے کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے ۔ کابل میں تعیناتی کے دوران اِس بزرگ کو دیکھنے اور ملنے کا کئی بار اتفاق ہوا مگر ہاتھوں کی لمبائی دیکھنے کا خیال نہ آیا ۔

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی صدارت کے دن تھے 20 جنوری 1964 کو باچا خان کو جیل سے رہا کیا گیا اُنہیں پاسپورٹ ملا اور وہ علاج کے لیے انگلینڈ چلے گئے وہاں اُنہیں امریکہ میں ایک پختون گروپ اور مصر کے صدر جمال عبدالناصر سے دعوت نامے موصول ہوئے کہ وہاں جا کر رہیں مگر باچا خان نے دونوں سے معذرت کرلی اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ والی افغانستان کا مثبت جواب دیا 12 دسمبر 1964 کو کابل پہنچے ، اچھا استقبال ہوا ۔

29 جولائی 1967کو میں بحیثیت سیکنڈ سکریٹری اور شیر زمان غمزن بحیثیت معاون کابل پہنچے اور پاکستان کے سفارت خانے میں اپنی ذمہ داریاںسنبھالیں ۔باچا خان آرام سے بیٹھنے کے عادی نہیں تھے حسب عادت افغانستان میں دورے شروع کیے اور اپنے خیالات کا پرچار ،سیاسی بیداری شاہی محل کے مفاد کے منافی تھی افغان حکومت اُن کو نہ تو لوگوں سے دور رکھ سکتی تھی نہ ہی پرچار سے کیونکہ یہ مہمان نوازی کے تقاضوں کے خلاف تھا ۔ ایک دعوت میں افغان وزیر اعظم ڈاکٹر محمد یوسف نے اُن دنوں پاکستان کے سفیر جنرل محمد یوسف سے اشارتاً کہا کہ باچا خان اب مکمل صحت یاب ہوچکے ہیں اُن کا کب پاکستان جانے کا ارادہ ہے سفیر صاحب قبائلی تھے مطلب سمجھ گئے کہا ' آپ افغانوں کی مہان نوازی کی کافی شہرت ہے باچا خان کو آپ کی مہان نوازی سے لطف اندوز ہونے دیں ' ٖڈاکٹر یوسف مسکرادئیے

پاکستان میں جنرل محمد یحیی ٰ خان صدر تھے مغری پاکستان کی اکائی (ون یونٹ) کے خلاف صوبہ سرحد ، سندھ ، بلوچستان میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں جنرل یحیٰ نے اپنے بھائی آغا محمد علی کو جو صوبہ سرحد میں اعلیٰ پولیس افسر تھے ذمہ داری سونپی کہ حالات کا تجزیہ کرکے اپنی رپورٹ پیش کریں آغا محمد علی نے اپنے نائب ارباب ہدائت اللہ خان کو جو پولیس کی سپیشل برانچ کے انچارج تھے مناسب ہدایات دیں ارباب صاحب نے کابل کے کافی دورے کیے ،باچا خان سے ملے پاکستانی سفارت خانے میں مجھ سے اور شیر زمان سے بھی تبادلہ خیالات کرتے تھے سردار داود پشتونستان کے حامی اور ون یونٹ کے خلاف تھے ہر قسم کے سیاسی نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے ارباب صاحب نے اپنی مفصل رپورٹ مرتب کی اور آغا محمد علی نے اپنے بھائی صدر پاکستان جنرل محمد یحیٰ کو پیش کی۔ مغربی اکائی کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی تھی صدر صاحب نے اکائی ختم کرکے صوبے بحال کیے چترال ، دیر اور سوات کی ریاستوں کو بھی صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) میں ضلعوں کی حیثیت دے کر ضم کردیا ۔ باچا خان جو خود اس اکائی کے خلاف تھے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ' میرا پشتونستان جس کے لیے میں کوشاں تھا مل گیا کوئی اور پشتونستان کے متعلق جو خیال رکھے مجھے اُس سے کوئی غرض نہیں 'اشارہ سردار داود کی طرف تھا جو عظیم پشتونستان کا داعی تھا ۔باچا خان صوبہ سرحد کو پاکستان میں ہوتے ہوئے پشتونستان کا نام دینا چاہتے تھے ۔ ایک دن باچا خان نےہماری تھوڑی سی سرزنش کی کہا 'کابل میں تمام خارجی سفارت خانوں کے افسر میرے پاس آتے رہتے ہیں ،میں کچھ چھپا کر تو نہیں رکھتا سب کچھ کہہ دیتا ہوں ریڈیو پر بھی بلا کم و کاست بول دیتا ہوں تم لوگ میرے پاس سیدھے کیوں نہیں آتے ،مطلب یہ تھا کہ اُن کے متعلق ادھر ادھر سے کیوں پوچھتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سال 1969 میں باچا خان کو ہندوستان سے دعوت نامہ ملا کہ گاندھی جی کی برسی میں شمولیت کریں باچا خان کے پاکستانی پاسپورٹ جو ایک سال کے لیے تھا اُس کی میعاد ختم ہو چکی تھی افغان حکومت نے پیشکش کی کہ انہیں افغان پاسپورٹ دے دیں باچا خان نے انکار کرتے ہوئے کہ کہ وہ ایک پاکستان کی حیثیت سے پاکستان ہی کے پاسپورٹ پر سفر کریں گے ،کابل میں ہندوستان کے سفیر نے کہا اہ وہ اُن کے لیے ایک معزز ہستی ہیں اُنہیں کسی پاسپورٹ ،ویزہ کی ضرورت نہیں۔ باچا خان نہ مانے ۔ باچا خان نے اپنا پاسپورٹ پاکستانی سفارتخانے کو بھیجا اور ساتھ ہی ایک خط بزبان پشتو بنام سردار عبدالرشید وزیر داخلہ جس میں تجدید پاسپورٹ کی خواہش ظاہر کی گئی تھی بحیثیت کونسلر آفیسر میں نے باچا خان کی درخواست مع خط اپنی وزارت خارجہ کو ارسال کیا وہاں سے منظوری آئی اور میں نے باچا خان کو نیا پاسپورٹ جاری کیا وہاں اُن کو جواہر لال نہرو ایوارڈ دیا گیا اس کے ساتھ اسی لاکھ ہندی روپے بھی تھے۔ واپسی پر میری اور ان کی ملاقات اُن کے ساتھ محمد علی لونگین مومند کے گھر ہوئی ہم سے پہلے کوئی اور اُن سے نہیں ملا تھا ۔ باچا خان نے اسی (80) لاکھ روپے افغان نیشنل بنک میں جمع کئے وہ چاہتے تھے کہ اس رقم سے پشتون ٹرسٹ قائم کیا جائے جو پشتونوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے اس ٹرسٹ کے لیے انہوں اپنی جائداد میں سے پانچ جریب زمین بھی وقف کی تھی ۔ ٹرسٹ کے منتظم کے طور پر عبدالخالق خلیق کا نام زیر غور تھا ۔۔۔۔۔۔ جب مشرقی پاکستان میں سیلاب نے کافی تباہی مچادی صدر جنرل یحیٰ خان نے ریلیف فنڈ قائم کیا باچا خان نے 5000 امریکی ڈالر بطور چندہ پاکستانی سفارت خانے کو دئیے ۔

مشرقی پاکستان میں بلووں نے خطرناک صورت اختیار کی میں بہ ہمراہی رب نواز خان ،پاکستانی قونصل مقیم جلال آباداور شیر زمان جلال آبا د کے شیشم باغ میں باچا خان کی رہائش گاہ پر اُن سے ملے (باچا خان کا مزار اُسی رہائش گاہ میں بنایا گیا ہے ) باچا خان نے مشرقی پاکستان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجاب،سرحد ، سندھ اور بلوچستان کے چند نمائندگان کے ہمرہ مشرقی پاکستان جانے کے لیے تیار ہیں کہ شیخ مجیب کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ کسی طرح پاکستان کی بقا قائم رہے خان نے مزید کہا کہ اُن کے شیخ مجیب کے ساتھ اچھے اور گہرے مراسم ہیں اگر مذاکرات کامیاب رہے توپاکستان کا موجودہ وجود قائم رہے گا اگر شیخ صاحب نے اُن کی بات نہ مانی تو کہا جا سکے گا کہ شیخ صاحب نے اپنے دیرینہ قریبی دوست کی بات بھی نہیں مانی اس طرح کم از کم مغربی پاکستان پر الزام نہیں آئے گا ۔کابل پہنچ کر میں نے جنرل شیریں خان سفیر پاکستان کو تفصیلاً رپورٹ دی شاہد امیں صاحب معین سفارت بھی موجود تھے انہوں نے کہا اسے آگے بھیجنے کا کائی فائدہ نہیں سفیر صاحب نے رپورٹ صدر جنرل محمد یحیٰ کو نہیں بھیجی ۔ میں نے اپنے طور پر مکمل رپورٹ ہیڈ کوارٹر میں افغانستان کے ڈیسک آفیسر کو بھیج دی ڈیسک آفیسر ایک نہائت قابل بنگالی افسر تھے انہوں نے اس رپورٹ کا خلاصہ صدر کو بھجوادیا اُس افسر کے مطابق رپورٹ صدر کو پیش کی گئی اُنہوں نے اُسے پڑھا یا نہیں صرف مختصر دستخط کے ساتھ رپورٹ داخل دفتر ہو گئی ۔ کابل میں باچا خان نے تقاضا شروع کردیا کہ صدر صاحب سے جواب آیا کہ نہیں ۔ کافی تکرار کے بعد جب مایوس ہوئے تو کابل ریڈیو گویا ہوئے

' میرے عزیز پاکستانی بہن بھائیو! میں نے بنگال میں ہوتے ہوئے واقعات پر ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا کیونکہ میں حکومت پاکستان کے ساتھ رابطے میں تھا تاکہ مسئلہ محبت ،اخوت اور صلح کے طریقے سے حل ہو جائے ۔اگرچہ میں نے کافی دیر انتظار کیا میری اپیل پر حکومت کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا دریں اثنا بھٹو اور قیوم غلط پروپیگنڈے میں مصروف ہیں اور حقیقت کو چھپا رہے ہیں میرا اب یہ فرض بنتا ہے کہ کہ میں یہاں سچائی اور پاکستان کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ ،جیسا کہ میں دیکھتا ہوں کروں ۔۔۔اس دوران جلال آباد میں پاکستان کے قونصل(میں اور شیر زمان بھی ہمراہ تھے )مجھے ملنے آئے میں نے انہیں بتایا کہ بنگالی تعداد میں زیادہ ہیں اور زیادہ (لوگ)ملک نہیں توڑتے ۔ اگر پاکستان تباہ ہوا تو یہ بھٹو اور قیوم کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوگا ۔۔۔۔میں نے کہا کہ اگر حکومت پاکستان واقعی ملک کی بقا چاہتے ہیں تو اپنی خدمات حکومت پاکستان اور مجیب کے مابین مفاہمت کے لیے پیش کرتا ہوں '۔۔۔۔۔۔

ان ہی حالات میں ایک قبائلی جرگہ خان عبدالغفار خان کے پاس آیا اور اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں اسلحہ وغیرہ مل جائے تو اپنی آزادی کے لیے جدو جہد کرنے کو تیار ہیں باچا خان نے انہیں سختی سے ایسی حرکت سے باز رکھا جرگہ اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ سے بھی ملا مگر وہاں سے بھی تنبیہہ کر دی گئی اعلیٰ حضرت نے پاکستانی سفیر کو بھی پیغام دیا کہ مغربی سرحدوں پر کسی قسم کی حرکت نہیں ہوگی ۔

25 دسمبر 1972 کو باچا خان واپس پاکستان پہنچ گئے ۔2 اپریل کو خان عبدالغفار خان افغانستان آئے اور اپنی رہائش گاہ جلال آباد میں مقیم رہے 1980 میں علاج کے لیے کابل سے دہلی گئے ۔شیخ عبداللہ کی دعوت پر کشمیر جانے کا پروگرام نہ بن سکا یکم ستمبر 1980 سے 31 اکتوبر 1980 تک سوویٹ یونین میں زیر علاج رہے ۔،2 اپریل 1982 کو واپس پشاور چلے گئے 1987 میں باچا خان کو بھارت کی طرف سے 'بھارت رتنا' ایوارڈ ملا 20 جنوری کو 1988 کو باچا خان اس دنیا سے رحلت فرما گئے ۔اُن کا جسد خاکی اُن کی وصیت کے مطابق پشاور سے جلال آباد لایا گیا ۔"

پس تحریر : مصنف ایس فدا یونس ۔خیبر پختون خواہ کے ضلع کرک کےمقام صابر آباد(سابقہ ڈم کلے )کے باشندے ہیں ،24 اپریل 1923 بمقام تھانہ تلمبہ ضلع خانوال میں پیدا ہوئے ۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ والدین نے نام محمد یونس رکھا ، پھر فدا یونس بن گیا آخر میں سید فدا یونس ۔کچھ عرصہ خٹک بھی ساتھ لکھتا رہا 'گورنمنٹ ہائی سکول خانیوال سے تعلیم حاصل کی ۔ پولیس میں تھانیدار بنے ، پھر فوج میں کمیشن حاصل کیا ستارہ شجاعت حاصل کیا ۔ انٹیلی جنس سروس سے ہوتے ہوئے کابل میں سفارت کار بنے یہ اقتباس اُن کی کتاب "تھانے سے سفارت تک " سے لیا گیا ہے
 

اوشو

لائبریرین
ہماری نسل میں پاکستان کی تاریخ کے بارے میں بہت سی ڈس انفارمشین انجیکٹ کی گئی ہے۔ حقائق کو ٹھیک سے سامنے نہیں لایا گیا یا بے خبر رکھا گیا۔ قائد اعظم کی موت کے عوامل ، لیاقت علی خان کے قتل ، مادرِ ملت فاطمہ جناح رح کے ساتھ کھیلے گئے سیاسی کھیل سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ، بھٹو فیملی کے اہم افراد کے قتل تک ایک سلسلہ ہے تو تہہ در تہہ سازشوں کے تانوں بانوں میں چھپا ہوا ہے۔
ایسی ہی کچھ پسِ پردہ باتوں سے پردہ اٹھاتی معلوماتی تحریر ارسال کرنے کے لیے شکریہ سید زبیر جی
خوش رہیں آباد رہیں۔
 
Top