کتابوں کا اتوار بازار-7 مئی 2012-مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے ?

Rashid Ashraf

محفلین
گزشتہ اتوار بازار کی روداد کے سلسلے میں جوابات آئے اور ادھر میں حیران ہوا کہ جس تحریر کو لکھنے کے دوران بار بار آنکھیں صاف کرنا پڑی تھیں، کیا اسے پڑھا بھی اسی کیفیت میں گیا ہے ?

علی گڑھ سے میرے کرم فرما جناب پروفیسر اطہر صدیقی کا جواب یہ تھا:
""دنیا میں اس قدر غربت ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے،حتی المقدور جو ہو سکتا ہے وہ کرکے اپنے ضمیر کو چادر سے ڈھانک لینا چاہیے ورنہ زندہ رہنا مشکل ہے۔"

ادب سرائے کے منتظم جناب ناصر علی سید نے ایک نجی پیغام میں لکھا:
rashid jee........بور ka to pata nahi be maza zazoor howa k dhundlaee hovee aankhoun se parh raha tha aur AAP NE kahani KHATM KAR DI....chalo achcha howa k tumhi RUKK gaey dastaN kehte kehte.......warna ashkoun k jal thal main aur kahaN parha jata......salamat raho jeete raho.nasir

خیر کتابوں کو فٹ پاتھ پر دیکھنے کی تو اب عادت سی ہوگئی ہے، کل کا تجربہ بھی کچھ مختلف نہ رہا ۔ ۔۔ لیکن وطن عزیز میں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت نے کیا کیا منظر دکھلانے شروع کردیے ہیں، اس بارے میں یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ وقت اتنی سرعت سے آجائے گا۔

سوچتا ہوں کہ چند باتیں مزید اسی تعلق سے کرتا چلوں:

گزشتہ اتوار بازار کی روداد میں دفتر کے ایک ساتھی کا ذکر بھی آیا تھا، یہ صاحب ایک روز مجھے فون کرکے کہا کہ چلے آئیے، گاڑی لیتے آئیے، ایک جگہ جانا ہے۔ میں پہنچا تو دیکھا کہ صاحب دو بڑے تھیلے گھسیٹتے ہوئے چلے آرہے ہیں، انہیں گاڑی میں رکھا اور کراچی میں بہادر آباد کے علاقے میں واقع "عالمگیر ویلفئیر ٹرسٹ" پہنچے۔ معلوم ہوا کہ ان تھیلوں میں ہمارے صاحب کی شادی کے کپڑے تھے، دس سال سے جی جان سے لگا رکھا تھا اور اب خیال آیا کہ انہیں کسی مستحق تک پہنچا دیا جائے۔ میں ٹرسٹ والوں سے پوچھ بیٹھا کہ ان کا کیا کیا جائے گا ? جواب میں انہوں نے کراچی کی ایک مضافاتی بستی کا نام لیا کہ رواں ہفتے ہی دو بچیوں کی شادی میں یہ تمام قیمتی ملبوسات وہاں استعمال ہوجائیں گے۔ ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسے اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے جو اس نوعیت کے کام کرتے ہیں اور شہر کراچی میں عالمگیر ٹرسٹ کے علاوہ سیلانی ویلفیر ٹرسٹ بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے۔ مولانا ایدھی کا ایدھی ٹرسٹ تو بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔

سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ کے مالک اپنی تشہیر پسند نہیں کرتے، 1999 میں فٹ پاتھ سے آغاز کرنے والے آج سال کے کروڑوں روپے مستحقین میں بانٹ رہے ہیں، فٹ پاتھ پر کھانا کھلانے کا سلسلہ اب اس قدر مقبول ہوگیا ہے کہ بعض اوقات لوگوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک مرتبہ وہاں جانا ہوا تھا، دیکھا کہ دوپہر کے کھانے کے لیے رنگ و روغن کرنے والے کاریگروں، کوڑا کرکٹ چننے والے افغان بچوں کے ساتھ ہی ایک سفید پوش بزرگ بھی وہاں بیٹھے ہیں جو آنکھیں نیچی کیے چپ چاپ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔

ایدھی ٹرسٹ نے اپنا گھر کے نام سے بے سہارا بزرگ لوگوں کو چھت فراہم کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے شروع کررکھا ہے۔ اکثر ٹی وی چینل والے وہاں جانکلتے ہیں اور دیکھنے والے ان بزرگوں کی روداد سنتے ہیں جنہیں ان کی اولاد نے اپنے گھر سے نکال دیا ہے۔

یادش بخیر، ایک مرتبہ ایدھی کے مردہ خانے جانے کا اتفاق ہوا، جن صاحب کے ساتھ گیا تھا ان کے بھائی کی میت کو سرد خانے میں منتقل کرنے کے لیے نگراں کار نے ہم ہی سے درخواست کی، بڑے بھائی کے جسم پر کپکپی طاری دیکھ کر میں اندر چلا گیا۔ اندر کا منظر کیسا ہوسکتا تھا، اس کو وہی لوگ جان سکتے ہیں جنہیں وہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔
واپسی پر ایک سوال ذہن میں تھا۔ دو کروڑ کے شہر میں بلا معاوضہ خدمات فراہم کرنے والا ایک وسیع مردہ خانہ بھی ہونا چاہیے، اس کا خیال سب سے پہلے صرف مولانا ایدھی ہی کو کیوں آیا ? لوگ انہی پر ہی بھروسہ کیوں کرتے ہیں ?

پسندیدگی کے مکتوبات روانہ کرنے والے جناب اطہر صدیقی صاحب اور جناب ظہیر الدین دانش صاحب کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ پاک و ہند کے مسائل اب ایک ہوئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ دونوں ملکوں میں غربت کی صورتحال کا موازنہ کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ جیسا بھی ہو پاکستان میں رات کو کوئی بھوکا نہیں سوتا۔

اب یہ صورتحال بدل چکی ہے۔ ایک تازہ اطلاع کے مطابق اٹھارہ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں اب یہاں سات کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں غربت کی شرح میں آٹھ فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔

تین برس قبل ہونے والی قیامت خیز بارشوں کے بعد آنے والی تباہی میں میڈیا پر دکھیا گیا ایک منظر ذہن میں نقش ہوگیا تھا۔ مظفر آباد اور خیر پور میں حکومت نے مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا تھا، دونوں شہروں سے اس تقسیم کے دوران چار چار لاشیں اٹھی تھیں، یہ تمام لوگ اس دوران کچل کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مظفر آباد کا ایک بوڑھا شخص بھی ان میں شامل تھا۔

دوسری جانب یہ حال ہے کہ بینکوں سے قرضہ حاصل کرنے والا "قرض خور" مافیا قرضے کا فارم حاصل کرنے سے پہلے، قرضہ معاف کرانے کا فارم حاصل کرتا ہے!

میں اکثر سوچتا ہوں کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر سستے آٹے کے حصول کی خاطر لمبی قطاروں میں کھڑے جن لوگوں کے ہاتھوں میں آخری سو کا نوٹ ہے، جس روز یہ نوٹ بھی نہ رہا تو وہ ان قطاروں سے نکل کر آپ اور ہم ہر ٹوٹ پڑیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بھوکے شخص کو اور کچھ یاد ہو یا نہ ہو، انقلاب فرانس میں بادشاہ لوئی 16 اور عوام کو روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کا مشورہ دینے والی
ان کی ملکہ انقلاب، روس میں زار روس نکولس دوم اور رومانیہ کے چائوشسکو خوب یاد ہیں!
--------------

اتوار بازار سے ملنے والی دو عدد کتابوں کی تفصیل یہ ہے:

کچھ یادیں کچھ باتیں÷شوکت تھانوی÷ناشر: ادارہ فروغ اردو، لاہور÷سن اشاعت: 1964۔بازار کی قیمت: 50 روہے

نایاب ہیں ہم÷مصنف: آوارہ سلطان پوری÷ببمئی کے ادباء و شعرا کی یاداشتوں اور تذکروں سے مزین÷ناشر: اردو قبیلہ÷سن اشاعت: 1997

"نایاب ہیں ہم" پر ہندستانی شاعر افضل منگلوری کے دستخط ہیں، یہ دلچسپ و نایاب کتاب انہوں نے کراچی کے شاعر "عارف شفیق" کو تحفے میں پیش کی تھی۔
ادبی دنیا نامی جریدہ عارف شفیق اور افضل منگلوری نکالا کرتے تھے، غالبا اب افضل صاحب اس سے علاحدہ ہوگئے ہیں۔
آوارہ سلطان پوری کا انتقال بمبئی میں 1992 میں ہوا۔

آوارہ صاحب کا ایک شعر دیکھیے:
جو سمندر میں بانس ڈالے گا
اپنی پگڑی وہی اچھالے گا

آوارہ صاحب، دوسری جنگ عظیم سے قبل 18 برس کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوگئے تھے۔ برما کے محاذ پر بندوق اور قلم ساتھ ساتھ چلاتے رہے۔ 1946 میں قلم، بندوق پر ھاوی آگیا لہذا فوج کو خیر باد کہا اور 1950 میں بمبئی آگئے۔ بمبئی کے مضافاتی ممبرا میں سکونت اختیار کی (وہیں آسودہ خاک ہیں)۔ گردش حالات نے مکان سے جھونپڑے میں رہنے پر مجبور کیا، اہلیہ کے انتقال کے بعد حالات بہتر ہوگئے اور اسی جھونپڑے کی جگہ ایک شاندار عمارت کے مالک بنے۔

ان کے ایک رفیق تھے، مولانا شحیم گونڈوی، ممبرا مسجد کے پیش امام تھے، وہی ان کے ممبرا میں آباد ہونے کا سبب بنے۔ اسٹیشن کے بالکل سامنے تین ہوٹل، بنیے کی ایک دکان، کیلے والے اور دس گھر کی بستی جس میں ایک بھوت بنگلہ بھی شامل تھا، یہی تھی اس زمانے میں ممبرا کی کل کائنات۔ دیکھا تو جگہ پسند آگئی۔ پیچھے پہاڑی اور سامنے ریلوے لائن اور سمندر کی کھاڑی یعنی مرنے کی تمام آسانیاں موجود۔ آوارہ صاحب کی بیگم دیہاتن تھیں، یہ ماحول دیکھ کر خوش ہوگئیں۔ صاف مٹی، کھلی ہوا اور دھوپ۔ بقول آوارہ صاحب، بمبئی والوں کو یہی تین چیزیں نصیب نہیں ہوتیں۔

اسٹیشن کے سامنے ہوٹل والے باوا کی ایک آنے کی اسپیشل چائے، دو آنے کی بالائی اور پایا، یہی تین چیزیں مشہور تھیں۔ ہوٹل والے باوا ماں، بیوی اور گود کی بچی کو چھوڑ کر نوجوانی میں ٹاٹا نگر سے بھاگے تھے اور بھٹکتے ہوئے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ہر دھونی رمائے کر بارہ برس تک بیٹھے رہے۔ ممبرا آئے تو کالے کپڑے، بڑی بڑی جٹا اور ہاتھ میں کمنڈل تھا۔ اب وہ اس علاقے کے مشہور آدمی تھے۔

باوا کے ہوٹل کے ساتھ شکیل بھائی کی پان کی دکان تھی، آوارہ صاحب کو دیکھ کر کہنے لگے: آپ کا نام وصی احمد ہے۔
آوارہ صاحب حیران ہوئے کہ ان کا اصلی نام تو کوئی نہیں جانتا۔
استفسار پر شکیل بھائی بولے؛ آپ 1947 میں جبل پور میں ملٹری ٹریننگ سینٹر میں حوالدار تھے نا ?
معلوم ہوا کہ وہ بھی فوج کی روٹی کھائے ہوئے ہیں!

آوارہ سلطان پوری کہتے ہیں کہ اس وقت ممبرا میں ایک آنے کا عمدہ چیکو ملتا تھا اور کیلا تھا دو آنہ درجن۔ کلیان سے وی ٹی تک مہینے بھر کا پاس سات روپے میں بنتا تھا۔ کھاڑی سے ریت نکلتی تھی اور پہاڑ سے پتھر کے ٹکڑے۔ اس زمانے میں ممبرا کا یہی کاروبار تھا۔

آوارہ سلطان پوری کتاب میں شامل انٹرویو میں کہتے ہیں:

"" میری زندگی تلخ و شیریں تمام لذتوں سے راقف ہے۔ کبھی سات پیسہ گز بکنے والی جاپانی ڈوریا کے لیے ترسا ہوں تو کبھی اٹالین کمبل درجنوں کے حساب سے بانٹے ہیں۔ زندگی کی بیشتر راتیں ہوادار کمروں میں بسر کی ہیں تو کبھی چٹ گاؤں کے جنگی مورچوں کے سڑے ہوئے پانی میں چھ چھ گھنٹے بیٹھا رہا ہوں۔ فوجی زندگی ہی کا بیشتر حصہ آفس میں بجلی کے پنکھے کے نیچے قلم چلاتے ہوئے گزارا ہے تو کچھ حصہ اراکان برما کی پہاڑیوں میں برین گن کی گولیوں کو چلاتے ہئے بیتا ہے۔ کبھی دو پیسے کی چائے کی پڑیا خریدنے کی استطاعت نہیں تھی تو کبھی ہزاروں روپیہ بغیر مانگے ہوئے ضرورت مندوں کو دوسروں کے ذریعے پہنچا دیے۔ اب اپنے گھر کے قالین پر بیٹھا زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ خوشی یا سکون صرف دوسروں کو خوش کرکے ہی نصیب ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں میرا یہ شعر سن لیجیے:

دوستو! غم بھی کھاتی ہے دنیا
تلخ ہے بے مزہ تو نہیں ہے ۔۔۔۔ ""

---------

آپ نے جوش کی یادوں کی برات میں ان کے زمانے کی چند عجیب ہستیوں کا احوال پڑھا ہوگا۔ آوارہ سلطان پوری کی کتاب "نایاب ہیں ہم" اس قسم کے تذکروں سے پر ہے۔

مائل دہلوی کے احوال میں آوارہ سلطان پوری بیان کرتے ہیں:

فاطمہ بلڈنگ میں میرا چھوٹا سا کارخانہ تھا۔ چار پانچ کاریگر کام کرتے تھے۔ ایک دن مظفر شاہجہان پوری ایک بزرگ ساتھ لائے اور فرمایا: لو بھئی! استاد سے ملو۔
میں سمجھا مظفر صاحب تفریح کے موڈ میں ہیں۔ عزت سے سلام کرکے بٹھایا۔ چائے والے کو آواز دی اور استاد سے مخاطب ہوا۔ ننگے سر، ننگے پاؤں، ٹخنے سے ایک بالشت اونچی ٹانڈہ کی معمولی لنگی، معمولی کپڑے کا مٹ میلا کرتہ، ہاتھ میں المونیم کا دو ڈبے والا ٹفن، داڑھی بڑھی ہوئی اور داڑھی کے بالوں میں روئی کے ریشے اٹکے ہوئے۔
مظفر شاہجہان پوری نے کہا کہ استاد جنسیاتی شاعری کے استاد ہیں۔ چائے پی کر استاد کہنے لگے: میں مل میں کام کرتا ہوں، وہاں مجھے سیٹھ استعمال کرتا ہے، گھر میں بیوی اور ہابر دوستوں کی حاجت رفع کرتا ہوں۔""
اوپر لکھی ہوئی ہیت کا یہ آدمی اگر چار سو چویتر روپیہ پچاس پیسہ تنخواہ پاتا ہے تو پچاس پیسہ سمیت پوری تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔ رفیع احمد خاں اور عریاں حیدرآبادی کے رنگ کی شاعری کرتے ہیں۔
--------
کمہار واڑہ میں ایک تھے بھیا جی جو ڈائیاں بنانے کے کام میں ماہر تھے۔ گرم اور ٹھنڈے سبھی طرح کے کام میں ایکسپرٹ تھے۔ وہ تھے لکھنؤ کے، ان کے آباء توپیں بنانے میں ماہر تھے۔ بھیا جی نے ایک واقعہ سنایا:
اگلے وقتوں میں کوئی بڑے مہاجن تھے، راجہ اور مہاراجاؤں کو قرض دیتے تھے۔ وہ اتفاق سے بیمار پڑ گئے۔ خبر ملتے ہی روساء آنے لگے۔ مہمانوں کا تانتا بندھ گیا۔ کھایا پیا، واپس گئے۔ ڈاکٹروں، حکیموں کی بن آئی، نذرانے، دوا کے کام، تیمارداری کے اخراجات۔ شفا ہوئی تو غسل صحت کا جشن اور اس جشن میں راجہ، نواب اور روسائے شہر کی مہمانداری۔ پھر مبارکباد کے ساتھ ساتھ رخصتی کے تحائف۔ جب فرصت ہوئی تو ساہوکار نے لڑکے کو بلایا اور حساب پوچھا۔ لڑکے نے حساب کرکے بتایا کہ پچیس ہزار خرچ ہوئے ہیں۔ بڈھے نے سر پیٹ لیا اور بیٹے سے کہا:
" آخر مجھے بچا کر تمہیں کیا لابھ ہوا ? پچیس ہزار خرچ ہوگئے اور ابھی مرنے کا مرنا باقی ""
 

الف عین

لائبریرین
یہ 7 مئی کی روداد ہے یا 27 مئی کی۔ شاید 2 ٹائپ میں چھوٹ گیا ہے۔
اس کے علاوہ کی بورڈ کون سا استعمال کرتے ہو؟ مجھے تمہارے مضامین میں سوالیہ نشان اکثر بدلنے پڑتے ہیں تدوین کرتے وقت۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
اعجاز صاحب!
درست عنوان 27 مئی کا اتوار بازار ہی ہے، اب آپ ہی اسے ٹھیک کرسکتے ہیں
بہت شکریہ
اردو کی بورڈ استعمال کرتا ہوں، آئندہ اس جانب بھی دھیان رکھوں گا

 
جناب @
Rashid Ashraf صاحب!​
آپ کا ہفتہ وار کالم خوب ہے۔ کیا لکھتے ہیں، داد قبول کیجیے۔
کتابوں سے آپ کی دوستی قابلِ تعریف ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہے۔ (کہیں ہماری نصف بہتر نہ سن لیں۔ گھر میں تو جہاں ہمارابس چلے تو سارے فیلٹ کو کتابوں سے بھر دیں ، وہیں اُن کا بس چلے تو تمام کتابوں کو چولہے میں جھونک دیں۔ یہی حال ہماری شاعری کا ہے۔ بقول اُن کے
اُٹھا کر پھینک دو چولہے میں اِس کو
تمہاری شاعری ہے ساری گندی)
استاد کا تذکرہ پڑھ کر ابنِ صفی مرحوم کا کردار استاد محبوب نرالے عالم یاد آگئے۔ خوب تذکرہ ہے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
محترم خلیل الرحمان صاحب، مزاج گرامی
آپ کا شکریہ جناب کہ اپنے قیمتی تبصرے سے احقر کو نوازا
کیا عجب اتفاق ہے صاحب کہ استاد مائل دہلوی کے اس تذکرے کو سپرد قلم کرتے وقت میرے ذہن میں رہ رہ کر استاد مضبوب نرالے عالم ہی کا خیال آرہا تھا۔
جو لنک میں نے اوپر درج کیا ہے، اس پر آپ " نایاب ہیں ہم" کا سرورق بھی دیکھ سکتے ہیں
استاد نرالے عالم سے متعلق عرض ہے کہ "کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا" کے عنوان سے خاکسار کی پہلی کتاب شائع ہونے کو ہے، استاد محبوب نرالے عالم پر میرا ایک طویل تحقیقی مضمون اس میں شامل ہے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
اعجاز صاحب!
ایک کرم فرما نے مندرجہ ذیل سوال کیا ہے:
ہندوستان کے صوبہ سی پی (موجودہ نام ایم پی) کے ایک شہر کٹنی میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جمیل (پورا نام یاد نہیں)۔ یہ 1954-55 وغیرہ کی بات ہے۔ وہ ہر ماہ ہاتھ سے ایک رسالہ لکھا کرتے تھے جس کا نام تھا "گونج"۔ ٹائٹل بھی خود بناتے تھے۔ پھر مختلف گھروں میں دو چار روز کے لئے بھیجتے تھے اور اس کے لئے افسانے، نظمیں، لطیفے اور دوسری چیزیں جمع کرتے تھے۔ پتہ نہیں اب وہ کہاں ہیں۔ ہیں بھی یا نہیں? اگر کٹنی کے کوئی صاحب انہیں جانتے ہوں تو مطلع کریں
 

الف عین

لائبریرین
افسوس کہ میں کٹنی کے کسی شخص، کجا ادیب، کو نہیں جانتا۔ ان کرم فرما صاحب کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا، اس ذریعے سے ہی معلوم کرنے کی کوشش کریں۔
 

الف عین

لائبریرین
اعجاز صاحب!
درست عنوان 27 مئی کا اتوار بازار ہی ہے، اب آپ ہی اسے ٹھیک کرسکتے ہیں
بہت شکریہ
اردو کی بورڈ استعمال کرتا ہوں، آئندہ اس جانب بھی دھیان رکھوں گا
اردو کی بورڈ تو درست ہے، لیکن کون سا والا؟ کرلپ کا، میرا اردو دوست یا کوئی اور؟
 
Top