کتابوں کا اتوار بازار ۔ یکم جولائی 2012

Rashid Ashraf

محفلین
کتابوں کا اتوار بازار ۔ یکم جولائی 2012
شاہد احمد دہلوی اور مارک ٹوین کی یاد میں
ّّّ
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے

حصہ اول


اس مرتبہ کتابوں کے اتوار بازار میں کراچی کے ایک کتب خانے کی کتابیں دیکھنے میں آئیں۔ ’’منٹو ۔نوری نہ ناری ‘‘ (سن اشاعت: 1985)، کراچی کے علاقے لانڈھی ٹاؤن کی ’شہید ذوالفقار علی بھٹو لائبریری‘ سے فٹ پاتھ پر پہنچی۔ مذکورہ کتاب کے آخر میں ’محکمہ کتب خانہ جات زونل میونسپلٹی کمیٹی شرقی ‘ کا کارڈ محفوظ حالت میں چسپاں ہے۔ اس کارڈ پر یہ جملہ بھی لکھا دیکھا: ’ آخری درج شدہ تاریخ پر کتاب کا واپس کرناضروری ہے۔ ‘ ۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کارڈ پر شامل ’تاریخ واپسی ‘ کے تمام کالمز خالی ہیں۔ یہ کتاب ایک مرتبہ بھی کسی نے مطالعے کی غرض سے حاصل نہیں کی۔ شہید وزیر اعظم کے نام پر قائم کی گئی اس لائبریری کی کتابیں بھی بالاآخر جون 2012 میں ’شہید‘ قرار پائیں۔ایک دوسری کتاب جو 1945 میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی تھی، لگ بھگ 67 برس بعد, 2012 میں اتوار بازار کے فٹ پاتھ کی زینت بنی نظر آئی، اسے مزید ناقدری سے بچانے کے لیے ہم نے اس پر قبضہ کرلیا۔ یہ ہے سید سلیمان ندوی کا لکھا سفرنامہ ۔۔۔ ’’ سیر افغانستان۔تین ہم سفر۔علامہ اقبال۔سید سلیمان ندوی۔سر راس مسعود۔‘‘۔۔۔اس کتاب کی قیمت ’کلدار روپیہ‘ کے ساتھ ساتھ ’سکہ عثمانیہ ‘میں بھی درج ہے ۔ہم ’عہد نظام دکن‘ میں ہوتے تو اس کتاب کو خریدنا لازم قرار پاتا۔ اس بارے میں سبط حسن جو کچھ ’شہر نگاراں‘ میں لکھ گئے ہیں، اسے پڑھنے کے بعد ’عہد راجہ‘ میں سانس لینے پر شکر ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ عہد راجہ میں شاید عنقریب عمل تنفس بھی محصول کی زد میں آ جائے۔
-----------------

شاہد احمد دہلوی کی کتاب بزم خوش نفساں بھی کیا خوب کتاب ہے۔ وہ لکھے اور پڑھا کرے کوئی۔ حال ہی میں وقت و حالات کی ستم ظریفی کے شکار ایک شخص کے حالات زندگی جاننے کا موقع ملا ، بے اختیار شاہد دہلوی کا مضمون ڈپٹی صاحب یاد آگیا۔ گردش حالات کی وجہ سے انسان کیسا کیسا وقت دیکھتا ہے، دنیا ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چند روز قبل (15 جون، 2012) ہمیں ڈاکٹر جمیل جالبی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔شاہد دہلوی اور جمیل جالبی، ایک جان دو قالب رہے ہیں۔ جالبی صاحب سے ملاقات کا احوال عنقریب پیش کروں گا ۔ بزم خوش نفساں ،جمیل جالبی صاحب نے مرتب کی تھی اور اس کے لیے ایک عمدہ و دلچسپ ابتدائی مضمون شاہد احمد دہلوی پر لکھا تھا۔

ڈپٹی صاحب سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

ڈپٹی صاحب کی جامہ زیبی ہزاروں میں ایک تھی۔چنی ہوئی دوپلی، سفید براق تن زیب کا انگرکھا ،آڑا پاجامہ، آدھی پنڈلیوں تک چوڑیاں پڑی ہوئی، پاؤں میں زرکار سلیم شاہی، بائیں ہاتھ میں پانوں کی ڈبیا اور بٹوہ۔دائیں ہاتھ میں چاندی کے موٹھ کی چھڑی۔ڈپٹی صاحب دلی کے محکمہ آبکاری میں انسپکٹر لیے گئے تھے ، ترقی کرکے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ہوگئے تھے۔جب وہ شام کو بازار مٹیا محل سے چوک کا رخ کرتے تو سب کی نظریں انہی پر لگی رہتی تھیں۔

ڈپٹی صاحب ہمت کے آدمی تھے مگر دس بیس کا نہیں، بیگم سے پچپن برس کا ساتھ تھا۔ بڈھے کی بیوی مر جائے تو بڈھے کی مٹی ٰ پلید ہے۔ پہلے روپیہ گیا، پھر بیوی گئی۔ عمر کے ساتھ ہاتھ پاؤں جواب دے رہے تھے، نماز پڑھتے اور دعا کرتے یا اللہ مجھے بھی اٹھا لے۔ دلی سے کراچی آچکے تھے، یہاں سعادت مند بیٹی اور داماد ان کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے تھے مگر ڈپٹی صاحب پرانی وضع کے بڑے نکیلے آدمی تھے۔ وہ اس غم میں گھلے جاتے تھے کہ ہائے میں بیٹی کے ٹکڑوں پر پڑا ہوا ہوں۔ وہ اب اسی کے پیٹے میں آگئے تھے۔ گھٹیا نے جوڑوں کو جکڑ لیا تھا۔ حکیم نے کہا کہ روزانہ کچھ پیدل چل لیا کریں۔

پچھلے جاڑوں میں ڈپٹی صاحب کو دیکھا کہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا میلا اوور کوٹ پہنے لکڑی کے سہارے ڈگمگاتے چلے آرہے ہیں۔ میں نے سلام کیا۔ پوچھا "آپ کون صاحب ہیں"۔۔۔۔۔ میں نے نام بتایا۔ بولے " ایں ؟ "۔۔۔ میں نے پھر اونچی آواز میں اپنا نام بتایا۔ کہنے لگے " بھئی ہماری خیر خبر لیتے رہا کرو میاں شاہد، ہم پکے پان ہیں، نہ جانے کب بلاوا آجائے۔"
پرانی باتیں کرتے، ٹھسکیاں لیتے، ہم گھر تک ہنچ گئے۔

ڈپٹی صاحب نے کہا " آج ہم تمہیں ایک مزے دار کہانی سناتے ہیں۔ جی چاہے تو کبھی لکھ بھی دینا، لاؤ، یہ رکابی مجھے دے دو۔"
میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا " لیجیے"
اب میں نے دیکھا کہ رکابی میں مکئی کی روٹیاں تھیں اور ان پر سرسوں کا ساگ رکھا ہوا تھا۔
میں نے کہا " حضرت سلامت، یہ آپ کہاں سے لے آئے اور اسے آپ کیسے کھائیں گے؟ ‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا " ارے بھائی یہی تو بتانے تمہیں اپنے ساتھ لایا ہوں، سنو:
آج جب میں بازار سے لوٹا تو حسب معمول رکتا رکاتا چلا آرہا تھا۔ راستے میں جہاں ایک جھونپڑی ہے نا، وہاں دم لینے کے لیے میں ایک پتھر پر ٹک گیا۔ کھانسی زور سے اٹھی، اتنی کہ سانس بے قابو ہوگیا۔ کھانسی اور ہائے ہائے کی آوازیں سن کر جھونپڑی کا پردہ ہٹا کر ایک عورت نے جھانکا " اے ہے، بیچارہ بابا تھک گیا۔ بھوک لگی ہے ؟ ‘‘
یہ کہہ کر جھونپڑی میں اندر چلی گئی۔ پھر جلدی سے واپس آکر بولی " بابا! جائیو مت! میں نے ابھی ہنڈیا اتار کر توا رکھا ہے۔"
وہ پھر چلی گئی ۔
معا" میرے دل میں خیال آیا کہ یہ عورت مجھے فقیر سمجھ رہی ہے۔ کیا اللہ کی شان ہے۔ یہ بڑھاپا نہیں، برا آپا ہے۔ اور مجھے اپنی بے بسی پر رونا آگیا۔ بہت ضبط کیا مگر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اتنے میں اس نے پردے میں سے ہاتھ بڑھا کر ایک پیڑھی میرے آگے ڈال دی " لے اس پر بیٹھ جا۔ پتھر ٹھنڈا ہوگا۔"
پھر میرے آنسو بہتے دیکھ کر جیسے بچے کو چمکارتے ہیں، چمکار کر بولی " رو مت بابا! میں تجھے گرم گرم روٹی کھلاؤں گی اور ہاں! سرسوں کا ساگ بھی،۔ نہ رؤ۔ "
اپنی زبوں حالی پر افسوس اور تاسف تو ہو ہی رہا تھا کہ اللہ! اب ہم ایسے ہوگئے کہ لوگ ہمیں فقیر سمجھ کر بھیک کے ٹکڑے دینے لگے۔ غیرت نے للکارا اور طبیعت میں بڑی جھونجھل آئی۔ وہاں سے اٹھنے کی کوشش کی کہ اس کے روٹی لانے سے پہلے چلا جاؤں مگر اس عورت کی ہمدردی اور خلوص نے ایک ایک پاؤں من من بھر کا کردیا۔
ابھی یہ کش مکش جاری تھی کہ ایک مٹی کی رکابی میں مکئی کی دو سفید سفید روٹیاں اور ان پر بھاپیں اٹھتا ہوا سرسوں کا ساگ رکھا ہوا نظر آیا۔
’’ لے بابا! کھا لے۔۔‘‘
میں نے ہاتھ بڑھا کر رکابی لے لی۔
عورت نے کہا ’’ یہیں بیٹھ کر کھالے، میں تیرے لیے پانی لاتی ہوں۔ ‘‘ ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں بیٹی ، میں گھر لے جاؤں گا، وہیں جاکر کھاؤں گا۔اس عورت نے چمکار چمکار کر کہا ’’ اچھا تو گھر لے جا۔رو مت، تیرا گھر کہاں ہے ؟ لا میں تیرے گھر پہنچا دوں۔‘‘
میں نے کہا ۔ ’’ نہیں بیٹی میں خود چلا جاؤں گا، تمہاری یہ رکابی شام کو دے جاؤں گا۔‘
عورت نے کہا ’ ’ نا! واپس نہ کیجیو۔میرے کنے اور بہتیری ڈھوبریاں ہیںگی، جو تیرا جی چاہے تو اگلی نوچندی جمعرات کو آ جائیو ۔جب سے میرا منا ہٹا ہے، میں نوچندی جمعرات کو ایک وقت کا کھانا اللہ نام کا نکالوں ہوں۔‘‘
میں نے کہا اچھا بیٹی،اللہ تجھے بہت سا دے۔جو میں جیتا رہا، ضرور آؤں گا۔
بس میاں میں وہیں سے چلا آرہا تھا کہ تم سے ملاقات ہوگئی۔
ڈپٹی صاحب اتنا کہہ کر رونے لگے۔
یہ وہی ڈپٹی صاحب تھے جن کے پیشاب میں چراغ جلتا تھا۔ جوز مین میں ٹھوکرماریں تو پانی نکل آتا تھا۔ آج ان کا یہ بڈرا ہوگیا تھا کہ لوگوں کو ان پر ترس آتا تھا۔ اور جھونپڑی والی عورت نے انہیں اللہ والا سمجھا۔ میں نے کہا ’’ ڈپٹی صاحب! یہ سخت روٹیاں بھلا آپ سے کیا کھائی جائیں گی ؟‘‘
میری بات ختم ہی ہوئی تھی کہ گھر میں سے ڈپٹی صاحب کی بیٹی کی آواز آئی ’’ ابا جی! میز پر کھانا لگا دیا ہے۔آجائیے۔‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا ’’ بیٹی آج تو ہم اللہ کے مہمان ہیں‘‘
ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔کھڑکی میں آکر بولیں ’’ جی ابا جی‘‘
ڈپٹی صاحب نے کہا ’’ آج تو ہم یہ کھائیں گے۔یہ دیکھو‘‘
بیٹی نے کہا ’’ اے ہے یہ کیا ؟ یہ ٹکڑ بھلا آپ سے کھائے جائیں گے ؟ کہاں سے لے آئیں ہیں انہیں۔اور یہ سرسوں کا ساگ ،یہاں تک آرہی ہے تیل کی بھکر، توبہ۔‘‘

ڈپٹی صاحب نے پر عزم آواز میں کہا ’’ہم تو بھائی آج یہی کھائیں گے۔ اللہ نے یہ کھانا ہمیں دلوایا ہے۔ہمارے لیے تو یہی من و سلوی ہے۔‘‘
ڈپٹی صاحب روٹی کا ٹکڑا توڑ کر ساگ لگا کر کھانے لگے۔ بھلا وہ ان سے کیسے چبتا ؟ سوکھ کر کھڑتک ہوگیا تھا ، مگر وہ اسے زہر مار کرتے رہے اور روتے رہے۔بمشکل دو ایک نوالے حلق سے اتارے اور پانی پی کر بولے ’’ الحمد اللہ ! آج بھیک کے ٹکڑوں کا مزہ بھی چکھ لیا۔‘‘
ان کی بیٹی انہیں ٹکر ٹکر دیکھتی رہی۔ ڈپٹی صاحب نے بیٹی کی طرف رکابی بڑھا کر کہا ’’ لو بھئی! اسے خالی کر لاؤ ،شام کا انتظار کون کرے‘‘
اور خالی رکابی لے کر لکڑی ٹیکتے ہوئے ڈپٹی صاحب روانہ ہوئے۔خدا جانے اس وقت ماضی کی دنیا میں کہاں پہنچے ہوئے تھے۔بار بار اس دوہے کو دوہرا رہے تھے:

ان نینوں کا یہی بسیکھ
وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ
-----------------
 

Rashid Ashraf

محفلین
حصہ دوم


اس مرتبہ اتوار بازار سے ملنے والی ایک کتاب مارک ٹوین پر تھی۔ "عظیم مزاح نگار مارک ٹوین۔ فن اور زندگی کا ایک جامع ناقدانہ جائزہ"......اس کے مترجم لاہور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سجاد حارث ہیں جنہوں نے اس کتاب کا مقدمہ 30 مارچ 1965 کو تحریر کیا تھا۔

30 نومبر 1935 کو پیدا ہونے والے مارک ٹوین کو ہم ایک مزاح نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ ان کا انتقال 12 اپریل 1910 کو ہوا تھا۔ مارک ٹوین اپنے ناولوں ہکل بیری فن کی مہمات (Adventures of Huckleberry Finn) ، ٹا م سایر کی مہمات (Adventures of Tom Sayer) اور بیشتر اقوال کے باعث معروف ہیں۔مارک ٹوین کے اقوال بہت زیادہ پسند کیے گئے اور اکثر ان کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی بزلہ سنجی اور حاضر جوابی کے باعث مارک ٹوین کو ناقدین اور ساتھی مصنفین کی جانب سے زبردست انداز میں سراہا گیا، مصنف ولیم فاکنرنے ٹوین کو "بابائے امریکی ادب" قرار دیا۔ لیکن اس کتاب کے مترجم نے مارک ٹوین کی ابتدائی زندگی کے حالات بھی بیان کیے ہیں جن کے مطابق اسے ابتدا میں ثقہ حضرات کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا تھا۔
مارک ٹوین کی کتاب "ہکل بیری فن" کو پہلے میسا چوسٹس لائبریری سے خارج کیا گیا۔ پھر نیویارک اسٹیٹ ریفامیٹری نے اسے گندی کتاب کہہ کر اپنی الماریوں سے نکال پھینکا۔ دینور، اوماہا، بروک لین، غرضیکہ جگہ جگہ "شرفاء" اور "ثقہ لوگ" اس کتاب کو تختہ دار پر کھینچتے پھرے۔ اس زمانے میں گنتی کے چند ہی لوگ تھے جو اس کتاب کی تاریخی اہمیت کو صحیح معنوں میں سمجھتے تھے۔ ان چند لوگوں میں نیویارک ٹائمز کے کالم نویس ولیم لونگسٹن ایلڈرن تھے جنہوں نے اسے اپنے دور کی ایک بہترین کتاب کہہ کر روایت پسند اور وضعدار شرفاء کو دلی صدمہ پہنچایا۔ اس کے بعد ولیم ڈین ہاولز، سر والٹر بیسنٹ، اینڈریو لونگ اور رابرٹ لوئی سٹیونسن جیسے بلند پایہ ادیبوں اور دانشوروں نے بلا جھجھک اسے امریکہ اور بعض اوقات تو دنیا کی عظیم ترین کتابوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ ٹی-ایس۔ایلیٹ نے "ہکل بیری فن" میں مارک ٹوین کو ایک ایسے عظیم ادیب کی حیثیت سے دیکھا جس کی مثالیں دنیا کی ہر زبان کے ادب میں چند ہی کو ملا کرتی ہیں۔ مشہور امریکی ادیب ارنسٹ ہیمنگوئے نے ایک جگہ لکھا تھا "" تمام تر امریکی ادب کا ماخذ مارک ٹوین کی کتاب ہکل بیری فن ہے، امریکہ کے تخلیقی ادب کا سرچشمہ یہ واحد کتاب ہے۔ اس سے پیشتر اس پائے کی کتاب امریکی ادب میں موجود نہ تھی، نہ ہی کوئی ایس کتاب آج تک لکھی گئی ہے۔""
امریکی انعام یافتہ ناول
The Caine Mutiny
کے مصنف ہرمین ووک کا قول ہے کہ مارک ٹوین کے بغیر جیک لنڈن، او-ہنری، شہروڈ اینڈرسن، ڈریزیر، ایف اسکاٹ فٹز جیرالڈ، سنکلیر لیوئس، بوتھ ٹارکنگٹن، ہینکن، ارنسٹ ہیمنگوئے اور ولیم فاکنز جیسے معروف زمانہ مصنفین اور ان کے بیسیوں مقلدین کا تصویر تک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سب سے سب کسی نہ کسی نہج سے مارک ٹوین سے متاثر اور مستفید نظر آتے ہیں۔

یہ بھی قدرت کی ایک ستم ظریفی ہے کہ جون 2010 میں مارک ٹوین کی سوانح حیات کے کبھی شائع نہ ہونے والے ایک حصے یا باب کو نیو یارک میں ہونے والی ایک نیلامی میں تقریباً ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر کی خطیر رقم کے عوض خرید ا گیا۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مارک ٹوین نے 65 صفحات پر مشتمل یہ ’فیملی سکیچ‘ یا چیپٹر اپنی 24 سالہ بیٹی سوزی کی موت کے غم میں لکھا تھا۔ ٹوین کی بیٹی 1896 ء میں انتقال کر گئی تھیں۔ بیٹی کی موت کے صدمے نے مارک ٹوین کو مایوسی سے نڈھال کر دیا تھا۔ جواں سالہ بیٹی کی موت کے کچھ سال بعد ہی 1904 ء میں مارک ٹوین کی اہلیہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں، تو یہ معروف امریکی طنز نگار ایک عرصے تک بہت دل شکستہ ہو گئے تھے۔مارک ٹوین کا فیملی بحران یہیں اختتام پذیر نہیں ہوا۔ ٹوین پر یکے بعد دیگرے مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہی چلے گئے۔ 1909 ء میں عالمی شہرت کے حامل اس ناول نگار کی دوسری بیٹی بھی محض 29 برس کی عمر میں چل بسی اور پھر اس صدمے کے ایک سال بعد ہی یعنی 1910 میں مارک ٹوین بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

مارک ٹوین جن دنوں یورپ میں مقیم تھا، وہاں اس نے ’جون آف آرک کی ذاتی یاداشتیں ‘ کا مسودہ مکمل کیا۔وہ زندگی بھر خلوص سے جون آف آرک کی پوجا کرتا رہا۔ جب 1896 میں یہ کتاب شائع ہوئی تو اس پر مارک ٹوین کا نام نہیں تھا۔ اسے ڈر تھا کہیں لوگ اسے بھی اس کی مزاحیہ کتاب سمجھ کر ہنسی میں نہ اڑا دیں۔پروفیسر حارث لکھتے ہیں : ’’ 1895 ۔96 کے لگ بھگ، مارک ٹوین دنیا کا دورہ کرتا ہوا برصغیر بھی آیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا تھا ۔اس کے ساتھ اس کی بیوی کلارا بھی تھی۔ لکھنؤ،دہلی اور لاہور کی رومان پرور فضاؤں میں اس نے اپنی زندگی کے یادگار شب و روز گزارے تھے۔یہاں کے خاص و عام نے اس کی ہر طرح خاطر داری کی۔پرنس کمار نے بالخصوص اس کی مدارت میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ محلات میں قیام کرنے اور راجوں اور مہاراجوں کی شان و شوکت دیکھنے کے باوجود وہ اس ملک کی غربت دیکھ کر وہ بہت ملول ہوا تھا۔ایک گاؤں میں مٹی اور گارے کے بنے ہوئے شکستہ مکانات دیکھ کر وہ آبدیدہ ہوئے بنا نہ رہ سکا اور بولا یہ ایک غم انگیز سرزمین ہے۔۔۔ناقابل قیاس غربت اور صعوبتوں کی سرزمین۔‘‘

مارک ٹوین کے چند اقوال پیش خدمت ہیں:
۔۔مہربانی ایک ایسی زبان ہے جسے بہرے سن سکتے ہیں اور اندھے پڑھ سکتے ہیں۔
۔۔شماریات اور اعداد و شمار سے زیادہ جھوٹے دلائل نہیں ہوسکتے اگر میں ہی انہی اعداد کو ترتیب دوں۔
۔۔سگریٹ چھوڑنا کون سی بڑی بات ہے، میں بیسیوں بار سگریٹ چھوڑ چکا ہوں۔
۔۔ہم نے چوکیداری کے لےی کتا پالا تھا، ایک رات کوئی چور اسے ہی چرا کر لے گیا۔
۔۔ہم اتنے غریب تھے کہ اپنی حفاطت کے لیے ایک کتا پالنے کی سکت بھی نہ رکھتے تھے، کبھی کبھی رات کو کسی آہٹ پر ہمیں خود ہی کتے کی آواز میں بھونکنا پڑتا تھا۔
۔۔مارک ٹوین نے اپنے ایک ناول کے دیپاچہ میں لکھا تھا۔۔۔۔ ’’ اگر کوئی شخص اس کہانی میں مقصد تلاش کرتا ہوا پایا گیا تو۔۔۔ اس پر مقدمہ چلایا جائیگا۔۔۔۔ اگر کسی شخص نے اس کتاب سے سبق لینے کی کوشش کی تو۔۔۔ اسے ملک بدر کر دیا جائیگا۔۔۔ اور اگر کسی نے اس میں پلاٹ تلاش کرنے کی جرات کی تو اسے۔۔۔ گولی ماردی جائے گی۔

اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا تعارف یہ ہے:

مارک ٹوین-عظیم مزاح نگار
فن اور زندگی کا ایک جامع ناقدانہ جائزہ
مصنف: لیوئس لیری
مترجم: سجاد حارث
ناشر: میری لائبریری-لاہور
سن اشاعت: 1966
صفحات: 96

سیر افغانستان
تین ہمسفر-عمالہ اقبال-سید سلیمان ندوی-سر راس مسعود
مصنف: سید سلیمان ندوی
سن اشاعت: مئی 1945
ناشر: نفیس اکیڈمی-عابد روڈ -حیدرآباد دکن
صفحات: 204
کتاب پر درج قیمت: دو رو پے چودہ آنہ (سکہ عثمانیہ) ۔۔۔۔۔۔۔۔ دو رو پے آٹھ آنہ (کلدار )

منٹو-نوری نہ ناری
مصنف: ممتاز شیریں
ناشت: مکتبہ اسلوب، کراچی
سن اشاعت: 1985
صفحات: 168

ہماری داستانیں
وقار عظیم
ناشر: اعتقاد پبلشنگ ہاؤس-سوتیوالان-نئی دہلی
سن اشاعت: 1980
صفحات: 495
 
Top