حزیں صدیقی کب ، کہاں ، کیسے لٹُے یاد نہیں

مہ جبین

محفلین
کب ، کہاں ، کیسے لُٹے یاد نہیں
حادثے اتنے ہوئے یاد نہیں

مجھ سے دنیا کی حقیقت سن لو
کوئی افسانہ مجھے یاد نہیں

حشر کیا تیری تمنا کا ہوا
تجھے معلوم ، مجھے یاد نہیں

دل تو احسان اٹھاتا ہی رہا
زخم کس کس نے دئیے یاد نہیں

ہر روش پھول کھلے تھے لیکن
ہم نے کیوں خار چنے یاد نہیں

گُم کہاں ہوں وہ بتائے سب کو
میں جو پوچھوں تو کہے یاد نہیں

خیر دنیا سے تو ہم خود ہی کھنچے
آپ کیوں ہم سے کھنچے یاد نہیں

زندگی موت کے سائے میں کٹی
کس خرابے میں رہے یاد نہیں

مدتوں پاؤں زمیں پر نہ ٹکے
کن ہواؤں میں اڑے یاد نہیں

حزیں صدیقی
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہ
بہت خوب کلام ہے
یاد نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساغر صدیقی مرحوم نے بھی ۔ اس " یاد نہیں " کو کبھی اپنے قلم کا موضوع بنایا تھا ۔
 
Top