کلیم عاجز کبھی چوٹ تونے بھی کھائی ہے کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا۔ ڈاکٹر کلیم عاجز۔

کاشف اختر

لائبریرین
وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا؟
تو اسی کو پیار کرے ہے کیوں یہ کلیمؔ تجھ کو ہوا ہے کیا؟

تجھے سنگ دل یہ پتہ ہے کیا کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا؟
کبھی چوٹ تو نے بھی کھائی ہے کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا؟

تو رئیس شہر ستم گراں میں گدائے کوچۂ عاشقاں
تو امیر ہے تو بتا مجھے میں غریب ہوں تو برا ہے کیا؟

تو جفا میں مست ہے روز و شب میں کفن بہ دوش و غزل بہ لب
ترے رعب حسن سے چپ ہیں سب میں بھی چپ رہوں تو مزا ہے کیا؟

یہ کہاں سے آئی ہے سرخ رو ہے ہر ایک جھونکا لہو لہو
کٹی جس میں گردن آرزو یہ اسی چمن کی ہوا ہے کیا؟

ابھی تیرا دور شباب ہے ابھی کیا حساب و کتاب ہے
ابھی کیا نہ ہوگا جہان میں ابھی اس جہاں میں ہوا ہے کیا؟

یہی ہم نوا یہی ہم سخن یہی ہم نشاں یہی ہم وطن
مری شاعری ہی بتائے گی مرا نام کیا ہے پتہ ہے کیا؟


ڈاکٹر کلیم عاجز
 
Top