داغ کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں

کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
اگر نہ آگ لگا دوں، تو داغؔ نام نہیں

وفورِ یاس نے یاں کام ہے تمام کیا
زبانِ یار سے نکلی تھی نا تمام نہیں

وہ کاش وصل کے انکار پر ہی قائم ہوں
مگر انہیں تو کسی بات پر قیام نہیں

سنائی جاتی ہیں درپردہ گالیاں مجھ کو
جو میں کہوں، تو کہیں، آپ سے کلام نہیں

وہ آئیں گے شبِ وعدہ، یقیں نہیں اے دل
چراغ گھی کے جلاؤں، یہ ایسی شام نہیں

سوائے جور و جفا، ماورائے بغض و دغا
بتوں کے واسطے دنیا میں کوئی کام نہیں

پیوں، پلاؤں تجھے، دور ہی سے ترساؤں
یہ روزِ عید ہے زاہد، مہِ صیام نہیں

دباؤ کیا ہے سنے وہ جو آپ کی باتیں
رئیس زادہ ہے داغؔ، آپ کا غلام نہیں

داغؔ دہلوی​
 
Top