مصطفیٰ زیدی کبھی جِھڑکی سے کبھی پیار سے سمجھاتے رہے

غزل قاضی

محفلین
کبھی جِھڑکی سے کبھی پیار سے سمجھاتے رہے
ہم گئی رات پہ دل کو لیے بہلاتے رہے

اپنے اخلاق کی شہرت نے عجب دن دکھلائے
وہ بھی آتے رہے ، احباب بھی ساتھ آتے رہے

ہم نے تو لُٹ کے محّبت کی روایت رکھ لی
اُن سے تو پوچھیے وُہ کس لیے پچھتاتے رہے

اُس کے تو نام سے وابستہ ہے کلیوں کا گداز
آنُسوؤ تم سے تو پتّھر بھی پگھل جاتے رہے

یُوں تو نا اہلوں کے پینے پہ جگر کٹتا تھا
ہم بھی پیمانے کو پیمانے سے ٹکراتے رہے

ان کی یہ وضعِ قدیمانہ بھی اللہ اللہ !
پہلے احسان کیا ، بعد میں شرماتے رہے

یوں کسے ملتی ہے معمول سے فرصت لیکن
ہم تو اس لطفِ غمِ یار سے بھی جاتے رہے


(مصطفیٰ زیدی از شہرِ آذر )
 
Top