کالم جات

توہین عدالت اور وزیراعظم
لیجئے میرا پہلاکالم آپ کے اردو فورم پر شائع ہورہا ہے- جیسا کہ آپ نے دیکھ بھی لیا اور سن بھی لیا کہ ہمارے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی صاحب نے سپریم کورٹ کے حکم سے کہ وزیراعظم صاحب سوئس حکومت کو بغیر کسی ایڈوائس کے سوئز حکومت کو خط لکھیں لیکن ہمارے محترم وزیراعظم سر عام یہ جلسئہ عام میں عدلیہ کے فیصلہ کی دھجیاں بکھیرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے جیل جانے کو تیار ہوں لیکن پیپلزپارٹی سے غداری نہیں کروں گا- میں یہاں باور کرانا چاہوں گا کہ ہمارے وزیراعظم نے حلف پاکستان سے وفاداری کا اٹھایا تھا نا کہ پارٹی کے وزیراعظم کی حیثیت سے آپ جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں نہ کہ پارٹی کے آپ کو عوام کے ووٹوں نے اس امید سے اس منصب پر فائز ہونے میں مدد دی کہ آپ عوام کی توقعاب پورا اتریں ناکہ پارٹی کے- بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ ہمیں عدلیہ کے فیصلوں پر پورا اتریں گے اور اس پر پورا اعتماد ہے لیکن جب عدلیہ کی جانب سے فیصلہ آتا ہے عوام کو بےوقوف بناتے ہوئے کہتے ہیں عوام نے ہی انہیں منتخب کیا ہم عوام کی عدالت میں جائیں گے بھئی ان سے تو پوچھو کہ عوام کی عدالت میں جانے کے لئے ان کے پاس بچا ہی کیا ہے- اس موجودہ حکومت نے عوام کو کچھ دینے کی جائے مہنگائی لوڈشیڈنگ کا ہی تحفہ تو دیا ہےعوام کی عدالت میں جانا ہے تو اس کا حل صرف اور صرف فوری طورپر الیکشن کروانا ہے محض جلسے جلوس کرنے سے آپ کی طاقت ظاہر نہیں ہوتی کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر سیاستدان کے جلسے میں لوگ تو ہوتے ہیں کچھ پارٹی کے اور کچھ تماشائی اور جس دن فیصلہ آتا ہے تو برعکس ہوتا ہے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی اور عدلیہ سے محاذ آرائی کسی بھی طور پر مہذب معاشرہ کو زیب نہیں دیتی ابھی بھی وقت ہے کہ ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں اور اس وقت پاکستان جن نازک حالات سے گزررہا ہے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیا جائے- عدلیہ مضبوط ہوگی تو آپ کی معیشیت مضبوط ہوگی ورنہ آپ ترقی یافتہ اقوام کھڑے نہ ہوسکیں گے اور ہم محض تھرڈ ورلڈ کے ترقی پذیر قوم ہی کہلاتے رہیں گے
 

عثمان

محفلین
لو جی، یہ تھا "کالم" ! :rolleyes: ، فاضل کالم نگار کا... جو سادہ مراسلے میں دو جملے جوڑنے تک سے قاصر ہے۔
 

حماد

محفلین
لو جی، یہ تھا "کالم" ! :rolleyes: ، فاضل کالم نگار کا... جو سادہ مراسلے میں دو جملے جوڑنے تک سے قاصر ہے۔
عثمان صاحب ۔ آپ تنقید برائے تنقید کا رویہ ترک کریں کیونکہ آپ کا اعتراض کسی بھی طرح درست نہیں۔ آپ نے آج کے وقت کے ابھرتے ابلتے اور اچھلتے کالم نگار پر "دو جملے جوڑ نہ سکنے" کی بھپتی کسی ہے ۔لیکن اگر آپ تعصب کی عینک کو اتار کر اپنی نظر کی عینک لگا کر پڑھتے تو آپ پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی کہ کالم نگار صاحب نے ایک ہی جملے میں اتنے سارے جملوں کو اکھٹا جوڑا ہے کہ انکے جملے ایک تاریخ کی مشہور شخصیت کی آنت کی طرح طویل ہوتے چلے جاتے ہیں کہ نوجوان قاری بھی پڑھتے پڑھتے ہانپنے لگتا ہے۔ ایک بار پھر ہمت کر کے یہ مثالیں ملاحظہ فرمائیے!
جیسا کہ آپ نے دیکھ بھی لیا اور سن بھی لیا کہ ہمارے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی صاحب نے سپریم کورٹ کے حکم سے کہ وزیراعظم صاحب سوئس حکومت کو بغیر کسی ایڈوائس کے سوئز حکومت کو خط لکھیں لیکن ہمارے محترم وزیراعظم سر عام یہ جلسئہ عام میں عدلیہ کے فیصلہ کی دھجیاں بکھیرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے جیل جانے کو تیار ہوں لیکن پیپلزپارٹی سے غداری نہیں کروں گا

اس موجودہ حکومت نے عوام کو کچھ دینے کی جائے مہنگائی لوڈشیڈنگ کا ہی تحفہ تو دیا ہےعوام کی عدالت میں جانا ہے تو اس کا حل صرف اور صرف فوری طورپر الیکشن کروانا ہے محض جلسے جلوس کرنے سے آپ کی طاقت ظاہر نہیں ہوتی کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر سیاستدان کے جلسے میں لوگ تو ہوتے ہیں کچھ پارٹی کے اور کچھ تماشائی اور جس دن فیصلہ آتا ہے تو برعکس ہوتا ہے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی اور عدلیہ سے محاذ آرائی کسی بھی طور پر مہذب معاشرہ کو زیب نہیں دیتی ابھی بھی وقت ہے کہ ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں اور اس وقت پاکستان جن نازک حالات سے گزررہا ہے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیا جائے
 

شمشاد

لائبریرین
میں بھی اسکول لائف میں ادھر ادھر کی تحریروں کو جوڑ کر لمبا سے مضمون لکھ لیا کرتا تھا۔
 
جناب شمشاد صاحب یہ ادھر ادھر کی تحریر نہیں ہے بلکہ آج ہی آن لائن تحریر کیا ہے کوئی آئیڈیا نہیں تھا بچوں کو اسکول چھوڑ کرآیا تھا تو میں نے سوچا کہ کچھ لکھ دیا جائے تو بیٹھےہی ٹائپ کرنے لگا اور جو الفاظ جملے ذہن میں آتے گئے لکھتا چلا گیا یہ کوئی سوچا سمجھا کالم نہیں ہے بس جو ذہن میں آتا گیا فوراً ہی آن لائن ٹائپ کرتا گیا
 
Top