مسلمان ہونے کے بعد ستیل کافی بدل گیا تھا۔ پہلے وہ ہر دوسرے تیسرے دن داڑھی نہ منڈاتا تو اسے چین نہ آتا۔ اب اس نے باقاعدہ داڑھی رکھ لی تھی جو اس کے بھرے بھرے چہرے پر بڑی سجتی تھی۔ نماز پڑھنے مولوی صاحب سے بھی پہلے مسجد میں آجاتا۔ جھاڑو دینا، پانی کے گھڑے بھرنا اور بڑے ذوق و شوق سے عربی پڑھنا اس کے معمولات میں شامل ہوگیا۔
مولوی صاحب کو بھی اس سے پہلے کسی غیر مسلم کے مسلمان بنانے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی، اس لئے وہ بہت خوش تھے اور آتے جاتے تعریف کرتے،
"بھائی ! یہ اپنا عبداللہ کتنا نیک اور کیسا محنتی مسلمان ہے۔"
کبھی کبھی مولوی صاحب کسی بے نمازی کو اللہ ، رسول اور آخرت کا وعظ دیتے تو عبداللہ کی مثال دے کر کہتے،
"ارے ! نماز پڑھو، ذکر کرو، نہیں تو قیامت کے دن یہ اوڈ تمہاری مسلمانی کو شکی کر دے گا۔"
عبداللہ کا دینی ذوق و شوق اور مسلمانوں سے سچی ہمدردی کے جذبے کو دیکھ کر مولوی صاحب اس کی دلداری کرتے اور کہتے تھے،
"عبداللہ! گھبرانا مت۔ رب سائیں تمہارے گناہ معاف کرے گا۔ صبح کو بھولا شام کو لوٹ آتا ہے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔"
عبداللہ بھی مولوی صاحب کی شفقت سے بہت متاثر تھا۔ وہ عرض کرتا،
"سائیں ! آپ اللہ کے پیارے بندوں میں ہیں، میرے لئے دعا کرو کہ پچھلے گناہ معاف ہو جائیں۔"
مولوی صاحب فوراً ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرتے اور دعا میں بڑی عاجزی سے کچھ شعر بھی پڑھتے،
"عرض سن ہم عاصیوں کی مصطفےٰ کے واسطے"
اس دوران عبداللہ والہانہ سے انداز میں برابر آمین آمین کہتا رہتا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر داڑھی میں جذب ہوتے رہتے۔
------×-×-×-×-×------