جوش کافرِ نعمت مسلمان - حضرت جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
(یہ نظم حیدرآباد کی ایک محفلِ میلاد کے واسطے قلم برداشتہ لکھی گئی تھی)
تم نہ بگڑو، تو میں پوچھوں ڈرتے ڈرتے ایک بات
سچ بتاؤ کون ہے اس وقت ننگِ کائنات
ہٹ گیا ہے کون ابرِ زندگی کی چھاؤں سے
کس نے اپنا تاج روندا ہے خود اپنے پاؤں سے
اس زمین و آسماں کی شہریاری چھوڑ کر
کون بھاگا ہے غلامی کی طرف منہ موڑ کر
صاف کہنا کون ہے ان ذیل کے عیبوں میں طاق
کذب، غیبت، افترا، اسراف، بدبینی، نفاق
آج کتراتا ہوا وحدانیت کی راہ سے
یہ مرادیں مانگتا ہے کون غیر اللہ سے
جھومتا ہے کون قوالوں کے ہر اک بول پر
کون یہ عرسوں میں پہروں ناچتا ہے ڈھول پر
بن کے 'ذاکر' سیم و زر کے ڈھیر پر گرتا ہے کون
خونِ اولادِ پیمبر بیچتا پھرتا ہے کون
پشتِ مرکب چھوڑ کر، تکیوں پہ ہے کس کا مدار
جنگ کے میداں میں کس نے پھینک دی ہے ذوالفقار
حجلۂ عشرت میں کی ہے یوں خدا کی کس نے یاد
فربہی کی کشمکش سے کر نہیں سکتا جہاد
کون چِلوں کی مشقت سے ہے یوں زار و حزیں
ضعف کی شدت سے جو تلوار اٹھا سکتا نہیں
گر گیا ہے آسماں سے کس کا پرچم خاک پر
جم گئی ہے برف کس کے شعلۂ چالاک پر
بن چکا ہے کس کا خودِ آہنی رشکِ حباب
مل چکا ہے کس کے انگاروں کو 'شبنم' کا خطاب
کون ہیں یہ لوگ، کچھ سمجھے بھی اے اطفالِ دیں
مجھ کو تو یہ وہم ہوتا ہے کہیں تم تو نہیں
تم نہیں، تو پھر یہ جینے کے عوض مرتا ہے کون
روز و شب آیاتِ حق سے دل لگی کرتا ہے کون
جب یہ عالم ہے تو وابستہ رہو اصنام سے
تم کو پھر کیا واسطہ پیغمبرِ اسلام سے
حق کے دشمن، نفس کے پابند، باطل کے غلام
تم کو کیا حق ہے کہ تم میلاد سے ہو شادکام
پختگی سے کام کیا افسردگانِ خام کو
تم نے ٹھکرایا ہے حق کے آخری پیغام کو
کب تلون کو پتا چلتا ہے استقلال کا
زاغ کو حق ہی نہیں بلبل کے استقبال کا
دل میں دم بھر کے لیے للہ سوچو تو ذرا
حق نے تم سے کیا کیا، اور تم نے حق سے کیا کیا
حق نے چھیڑا تھا زمیں پر نغمۂ ام الکتاب
تم نے برپا کر دیا ہنگامۂ چنگ و رباب
حق نے بخشا تھا تمہیں جوش و خروشِ جوئے آب
بن گئے تم رفتہ رفتہ صرف اک نقشِ سراب
حق نے تم کو نوعِ انساں کا بنایا تھا امام
بن گئے تم لعنتِ کوتاہ بینی سے غلام
حق نے چھانٹا تھا تمہیں دنیا کی شاہی کے لیے
تم نے پیہم کروٹیں بدلیں تباہی کے لیے
'مومن' و 'مسلم' کا بخشا تھا تمہیں اس نے خطاب
'شیعہ' و 'سنی' کا نازل کر لیا تم نے عذاب
اس نے رکھا تھا ہتیلی پر تمہاری آفتاب
تم نے پنہاں کر دیا اس کو سحاب اندر سحاب
بندگی اصنام کی ٹھہرائی تھی اس نے حرام
اور تم ہر مقبرے کو جھک کے کرتے ہو سلام
دل میں شرماؤ ذرا یہ کیا غضب کرتے ہو تم
زندگی کا زور، مردوں سے طلب کرتے ہو تم
مجھ سے آنکھیں تو ملاؤ، نو اسیرانِ نفاق
اس مہینے کو سمجھ رکھا ہے تم نے کیا مذاق
یہ تو ہے اے ناشناسانِ عیارِ کفر و دیں
روحِ انسانی کی آزادی کا یومِ اولیں
ہاں اسی دن، کام لے کر قوتِ ادراک سے
اک انوکھی بات قدرت نے کہی تھی خاک سے
ہاں اسی دن ہو گیا تھا سنگِ حق سے چور چور
آبگینے کی طرح جھوٹے خداؤں کا غرور
ہاں اسی دن قلبِ انسانی کی جانب دور سے
سر ہوا تھا آخری ناوک کمانِ نور سے
ہاں اسی دن حق نے بہرِ رفعتِ نوعِ بشر
مہر آخر ثبت کی تھی سرمدی منشور پر
ہاں یہ وہ دن ہے کہ درسِ حریت دیتی ہوئی
چونک اٹھی تھی زندگی انگڑائیاں لیتی ہوئی
ہاں اسی دن نطقِ یزداں نے کیا تھا یوں کلام
آج سے منسوخ ہے قانونِ آقا و غلام
ہاں اسی دن نے سنایا تھا یہ روحانی پیام
ابنِ آدم! ماسویٰ اللہ، عبادت ہے حرام
ہاں نہ سہمے نوعِ انساں ماسوا کے سامنے
اب جھکے بندہ تو صرف اپنے خدا کے سامنے
مومنو! اسلام کی تائید کی تم کو قسم
بت پرستی چھوڑ دو، توحید کی تم کو قسم
صاحبِ قرآں بنو، تعلیمِ قرآں کی قسم
اہرمن سے توڑ دو ہر عہد، یزداں کی قسم
شاہِ بحر و بر بنو، تخلیقِ آدم کی قسم
اپنے دل کی قوتِ تسخیرِ عالم کی قسم
باندھ لو سر سے کفن، شمشیرِ عریاں کی قسم
موت کا دھڑکا مٹا دو، آبِ حیواں کی قسم
اس کُرے کے آخری قانون کی تم کو قسم
چونک اٹھو سبطِ نبی کے خون کی تم کو قسم
سر اٹھاؤ، کشتگانِ عشق کے سر کی قسم
رن میں آؤ قوتِ بازوئے حیدر کی قسم
نیند سے بیدار ہو، احساسِ کامل کی قسم
جاگ اٹھو پیغمبرِ اسلام کے دل کی قسم
(جوش ملیح آبادی)
 
Top