شاہ نیاز کافرِ عشق ہوں میں بندۂ اسلام نہیں - حضرت شاہ نیاز بریلوی

حسان خان

لائبریرین
کافرِ عشق ہوں میں بندۂ اسلام نہیں
بت پرستی کے سوا اور مجھے کام نہیں
عشق میں پوجھتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
ایک پل دل کو مرے اُس کے بن آرام نہیں
ڈھونڈھتا ہے تو کدھر یار کو میرے اے ماہ
منزلش در دلِ ماہست لبِ بام نہیں
بوالہوس عشق کو تو خانۂ خالہ مت بوجھ
اُس کا آغاز تو آساں ہے پہ انجام نہیں
پھانسنے کو دلِ عشاق کے الفت بس ہے
گھیر لینے کو یہ تسخیر کم از دام نہیں
کام ہو جائے تمام اُس کا پڑے جس پہ نگاہ
کشتۂ چشم کو پھر حاجتِ صمصام نہیں
ابر ہے جام ہے مینا ہے مئے گلگوں ہے
ہے سب اسبابِ طرب ساقیِ گلفام نہیں
ہائے رے ہائے چلی جاتی ہے یوں فصلِ بہار
کیا کروں بس نہیں اپنا وہ صنم رام نہیں
جان جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسمِ گل
ہجر و فرقت کا میری جان پہ ہنگام نہیں
دل کے لینے ہی تلک مہر کی تھی ہم پہ نگاہ
پھر جو دیکھا تو بجز غصہ و دشنام نہیں
رات دن غم سے ترے ہجر کے لڑتا ہے نیاز
یہ دل آزاری مری جان بھلا کام نہیں
(حضرت شاہ نیاز بریلوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
عشق میں پوجھتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
ایک پل دل کو مرے اُس کے بن آرام نہیں
بوالہوس عشق کو تو خانۂ خالہ مت بوجھ
اُس کا آغاز تو آساں ہے پہ انجام نہیں
جان جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسمِ گل
ہجر و فرقت کا میری جان پہ ہنگام نہیں


بہت خوب انتخاب ہے۔ شکریہ حسان میاں۔ ان اشعار کو ذرا دوبارہ دیکھ لیں ان میں کچھ ٹائپو ہے۔
 

باباجی

محفلین
کافرِ عشق ہوں میں بندہء اسلام نہیں
بُت پرستی کے سوا اور مجھے کام نہیں
عشق میں پُوجتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
ایک پل دل کو میرے اُس کے بن آرام نہیں
بوالہوس پاؤں نہ رکھیو کبھی اس راہ کے بِیچ
کوچہء عشق ہے یہ، راہ گزارِ عام نہیں
ہائے رے ہائے چلی جاتی ہے یوں فصلِ بہار
کیا کروں بس نہیں اپنا، وہ صنم رام نہیں
عار کیا ہے تُجھے دنیا کی ملامت سے "نیاز"
عاشقوں میں تُو اکیلا ہی تو بدنام نہیں
(حضرت شاہ نیاز بے نیازؒ)
 

عاطف بٹ

محفلین
واہ، بہت خوبصورت انتخاب ہے شاہ جی۔
اس غزل کے مطلع میں پیش کیا جانے والا خیال شاید امیر خسرو کی ایک غزل کے اس مطلع سے لیا گیا ہے:
کافرِ عشقم، مسلمانی مرا درکار نیست​
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بوالہوس پاؤں نہ رکھیو کبھی اس راہ کے بِیچ​
کوچہء عشق ہے یہ، راہ گزارِ عام نہیں​
واہ واہ بہت خوب کلام۔۔۔ باباجی شکریہ :)
 

نایاب

لائبریرین
کیا ہی خوب کلام رندانہ شریک محفل کیا ہے محترم بابا جی
ذرا پھسلا خیال اور لگا ٹھپہ " خروج " کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
میاں صاحب کی " میٹھی کھیر " کا عکاس ۔۔۔۔۔۔۔۔
بوالہوس پاؤں نہ رکھیو کبھی اس راہ کے بِیچ
کوچہء عشق ہے یہ، راہ گزارِ عام نہیں
 

باباجی

محفلین
کیا ہی خوب کلام رندانہ شریک محفل کیا ہے محترم بابا جی
ذرا پھسلا خیال اور لگا ٹھپہ " خروج " کا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔​
میاں صاحب کی " میٹھی کھیر " کا عکاس ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔​
بوالہوس پاؤں نہ رکھیو کبھی اس راہ کے بِیچ
کوچہء عشق ہے یہ، راہ گزارِ عام نہیں
بہت شکریہ شاہ جی آپکو پسند آیا یہ کلام :)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فراز صاحب ٹیگر کرنے کیلیے۔

افسوس کہ مجھے آپ کا موضوع ضم کرنا پڑا ہے کہ پہلے ہی سے یہ غزل پوسٹ ہو چکی ہے۔

مزید یہ کہ شاہ نیاز کا پری فکس بنا دیا ہے تا کہ کلام ڈھونڈنے میں آسانی اور مکرر موضوعات سے بچاؤ ہو سکے۔

والسلام
 

باباجی

محفلین
شکریہ فراز صاحب ٹیگر کرنے کیلیے۔

افسوس کہ مجھے آپ کا موضوع ضم کرنا پڑا ہے کہ پہلے ہی سے یہ غزل پوسٹ ہو چکی ہے۔

مزید یہ کہ شاہ نیاز کا پری فکس بنا دیا ہے تا کہ کلام ڈھونڈنے میں آسانی اور مکرر موضوعات سے بچاؤ ہو سکے۔

والسلام
بالکل ٹھیک ہے وارث بھائی اس میں کوئی افسوس والی بات نہیں ہے
:)
 

باباجی

محفلین
کافرِ عشق ہوں میں بندۂ اسلام نہیں
بت پرستی کے سوا اور مجھے کام نہیں
عشق میں پوجھتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
ایک پل دل کو مرے اُس کے بن آرام نہیں
ڈھونڈھتا ہے تو کدھر یار کو میرے اے ماہ
منزلش در دلِ ماہست لبِ بام نہیں
بوالہوس عشق کو تو خانۂ خالہ مت بوجھ
اُس کا آغاز تو آساں ہے پہ انجام نہیں
پھانسنے کو دلِ عشاق کے الفت بس ہے
گھیر لینے کو یہ تسخیر کم از دام نہیں
کام ہو جائے تمام اُس کا پڑے جس پہ نگاہ
کشتۂ چشم کو پھر حاجتِ صمصام نہیں
ابر ہے جام ہے مینا ہے مئے گلگوں ہے
ہے سب اسبابِ طرب ساقیِ گلفام نہیں
ہائے رے ہائے چلی جاتی ہے یوں فصلِ بہار
کیا کروں بس نہیں اپنا وہ صنم رام نہیں
جان جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسمِ گل
ہجر و فرقت کا میری جان پہ ہنگام نہیں
دل کے لینے ہی تلک مہر کی تھی ہم پہ نگاہ
پھر جو دیکھا تو بجز غصہ و دشنام نہیں
رات دن غم سے ترے ہجر کے لڑتا ہے نیاز
یہ دل آزاری مری جان بھلا کام نہیں
(حضرت شاہ نیاز بریلوی)
واہ بہت خوب حسان بھائی
 
Top