ڈیرہ بگٹی میں سکولوں کی صورتحال

مہوش علی

لائبریرین

ذرا ذیل کی خبر ملاحظہ فرمائیں۔ خبر کے آخری حصے میں ڈیرہ بگٹی میں موجود سکولوں کی حالت زار کا ذکر کیا گیا ہے۔
کیا یہ صورتحال سامنے آنے کے بعد بھی کوئی یہ تقاضا کر سکتا ہے کہ فنڈز انہیں بلوچ قبائل کے سرداروں کے حوالے کر دینے چاہیے ہیں؟

یہ خبر جنگ اخبار سے نقل کی جا رہی ہے۔

جنگ اخبار سے ایک خبر نے کہا:
Date: Friday, December 30, 2005
قومی خبریں
ڈیرہ بگٹی ، کوہلو میں 29فراری کیمپوں کا پتہ چلا لیا گیا، 6تباہ
کوئٹہ … طاہر خلیل+ نمائندہ خصوصی… حکام نے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں مجموعی طور پر 29 فراری کیمپوں کا پتہ چلایا ہے جن میں سے ڈیرہ بگٹی ایجنسی میں 15 اور کوہلو ایجنسی میں 14 کیمپوں کا پتہ چلایاگیا ہے۔ کوہلو کے پہاڑی علاقے میں 6فراری کیمپ ختم کردیئے ہیں جہاں سے شرپسندوں نے مبینہ طور پر 14دسمبر کو صدر کے دورہ کوہلو کے موقع پر تین راکٹ داغے تھے۔ ذرائع کے مطابق حکام نے اس بارے میں کوہلو کے ضلعی ناظم علی گل مری سے بھی تفتیش کی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ صدر کے دورہ کوہلو سے ایک رات قبل ضلعی ناظم کی نواب خیر بخش مری کے بیٹے بالاچ مری سے ملاقات ہوئی تھی اور بالاچ مری کو صدر کے دورہ کوہلو کے پروگرام کی معلومات فراہم ہوئی تھیں۔حکام فراری کیمپوں کیلئے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا پتہ چلانے کی کوششیں کررہے ہیں، تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ چمن کی پاک افغان سرحد کے قریب دیش گاؤں کو اسلحے کی تجارت کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اور بلوچستان میں ایک راکٹ 1500 روپے میں دستیاب ہے ، تربت سے بی ایل اے کے 8 کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ صدر کی کوہلو آمد کے موقع پر تین راکٹ فائر ہونے کے واقعے کے فوراً بعد امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں نے کارروائی کرکے شرپسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس کے بعد اس جگہ سے کوئی راکٹ فائر نہیں ہوا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ اس امر کی تفتیش میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے کہ راکٹ کہاں سے آرہے ہیں اورکون انہیں چلانے کی تربیت دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان میں اس وقت 1500روپے میں راکٹ مل جاتا ہے مگر اسکے لانچرز‘ ٹریننگ اور مینٹی نینس کے لئے فنڈز کہاں سے آرہے ہیں اس کا پتہ چلایا جارہا ہے۔ سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ کوہلو کے واحد انٹرمیڈیٹ سکول کا اس سال کا نتیجہ صفر تھا اسی طرح ڈیرہ بگٹی میں کام کرنے والے 42سکولوں میں تعلیم کا معیار صوبے میں سب سے زیادہ پست ہے جس کے بارے میں حکام کا موقف ہے کہ ان سکولوں میں کوئی ٹیچر نہیں ہے اور سب لوگ ”کیمپوں“ میں ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ حکام نے حال میں خضدار‘ کوہلو‘ ڈیرہ بگٹی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں سکولز‘ کالجز‘ ہسپتالوں اور رفاہ عامہ کے دیگر اداروں میں کارکردگی کی جائزہ رپورٹیں بھی تیار کی ہیں۔
 
Top