ڈاکٹر وزیر آغا......اردو ادب کا آخری ستون۔۔از ۔۔نسیم افتی۔ افتی نامہ۔۔بشکریہ اج پشاور

Dilkash

محفلین
ڈاکٹر وزیر آغا......اردو ادب کا آخری ستون
ڈاکٹر وزیر آغا وفات پا گئے ہیں‘ یہ پاکستان میں اردو ادب کا آخری ICON تھا جو جسمانی طور پر ختم ہو گیا۔ میں یہاں وزیر آغا کے علم و فراست کی باتیں لکھنا شروع کر دوں تو میرا کالم بھی باقی کالموں کی طرح ہوگا۔ ایک تو میں اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں کہ وزیر آغا کے کام پر لکھ سکوں‘ دوسری بات یہ ہے میرا دل نہیں کر رہا کہ میں بھی دوسروں کی طرح وزیر آغا کو اردو ادب کا چاند‘ سورج اور جو روایتی القاب ہوں وہ لکھ سکوں۔ پُلوں کے نیچے سے پانی گزر چکا ہے مگر ہمارے جیسے قصہ گو آج بھی نئی نسل کو وہ باتیں بتائیں گے جو ان کیلئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

یہ 1960ء کے آخری سالوں کا ذکر ہے میرے والد خلیق قریشی مرحوم اپنے اخبار’’عوام‘‘ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے‘ میں کوئی چیز انہیں دینے کیلئے گیا‘ وہ اپنی کُرسی پر بیٹھے مجھے گُھور رہے تھے۔ ان کی نظروں سے پتہ چل گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے‘ ابا جی نے ایک خط میرے آگے کر دیا‘ یہ ایک منظوم خط تھا‘ میں جُوں جُوں خط پڑھتا گیا‘ میرے اوسان خطا ہوتے گئے۔

وہ منظوم خط وزیر آغا صاحب کی ہجو میں لکھا گیا تھا اور انتہائی گندہ اور بیہودہ تھا۔ بعد میں علم ہوا کہ یہ خط قتیل شفائی محسن بھوپالی اور چند اور لوگوں کی مشترکہ اختراع ہے (ایسا ہی خط میرے اپارٹمنٹ میں محسن بھوپالی‘ حمایت علی شاعر جون ایلیا کی مشترکہ کوششوں سے محترمہ نیئر جہاں کی شان میں لکھا گیا تھا‘ جس کی کاپی نذر نقوی کے پاس موجود ہے۔ (اس وقت تک نیر آپانے ان کو اپنے مشاعروں میں نہیں بلایا تھا) میں نے ابا جی سے معذرت کی کہ مجھے تو ان لوگوں کا علم نہیں‘ آپ کے شاعر دوست ہیں‘ پھر میں لاہور پڑھنے کیلئے چلا گیا‘ احمد ندیم قاسمی صاحب سے مجھے نہ صرف عقیدت بلکہ محبت بھی تھی اور وزیر آغا صاحب کا میں مداح اور ان کے علم کا معترف تھا۔

اس زمانے میں ’’ فنون‘‘ اور’’ اوراق‘‘ میں چھپنا بالکل ایسے ہی تھا جیسے دنیا بھر میں آپ کو شاعر یا ادیب مان لیا گیا ہے۔ ’’فنون‘‘ اور ’’اوراق‘‘ کی اشاعت سے پہلے بڑے بڑے پوسٹردیواروں پر لگا کرتے تھے اور جن شعراء اور ادباء کی نگارشات اس میں شائع ہوتی تھیں‘ ان کے نام لکھے ہوتے تھے‘ میں نے بھی دونوں رسالوں میں اپنی غزلیں دیں‘ ایک رات جب میں ہال سے نکل کر پرانی انارکلی کی سیر کر رہا تھا کہ ایک دیوار پر میری نظر ٹک گئی‘ وہاں دونوں رسالوں کے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ شاعروں کے نام پڑھتا گیا

آخر میں دونوں پوسٹروں پر لکھا ہوا تھا اور افتخار نسیم۔ یقین کیجئے اتنی خوشی مجھے کسی اور جگہ پر چھپنے سے نہیں ہوئی‘ جتنی اس وقت اپنا نام دیکھ کر ہوئی۔ وزیر آغا عارف عبدالمتین اور چند اور لوگ چائنیز لنچ ہوم مال روڈ پر بیٹھا کرتے تھے اور شہزاد احمد‘ ناصر کاظمی‘ انتظار حسین اور باقی شعرا اور ادیب پاک ٹی ہاؤس میں۔ ایسے لگتا تھا دونوں جگہوں پر بیٹھنے والوں کے مزاج الگ الگ اور ادب میں رجحان الگ الگ تھے۔ چائنیز لنچ ہوم میں بیٹھنے والے اپنے آپ کو ایلیٹ طبقہ سمجھتے تھے‘ جس میں افتخار جالب‘ انیس ناگی بھی شامل تھے اور پاک ٹی ہاؤس والوں کو ذرا نچلے طبقے کا سمجھا جاتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ ایک پورے طبقے نے احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی اور دیوار اتنی بلند کر دی گئی کہ اگر احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا ملنا بھی چاہتے تو مل نہیں سکتے تھے حالانکہ دونوں کا تعلق ایک ہی علاقے سے تھا۔ وزیر آغا کا کئی جگہ پر داخلہ بند کر دیا گیا‘ قاسمی صاحب کے حواری ہاکی بردار مشہور ہو گئے جو بھی قاسمی پر تنقید کرتا یا وزیر آغا کے گروپ میں شامل ہوتا‘ اس کو ہاکیوں سے مارا جاتا مگر وقت کتنا ظالم ہوتا ہے‘ جب ملک سے باہر ایمبیسڈر بنانے کا وقت آیا تو احمد ندیم قاسمی پر اس کے ادنیٰ سے حواری کو ترجیح دی گئی۔

اگر کسی نے تمام عمر وزیر آغا کا ساتھ دیا ہے تو وہ ڈاکٹر انور سدید تھے‘ انہوں نے نہ صرف تمام عمر وزیر آغا کے ساتھ دوستی نبھائی بلکہ ان تمام لوگوں کے منہ بھی توڑے‘ جنہوں نے بلا وجہ ڈاکٹر وزیر آغا پر کیچڑ اُچھالا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا پرابلم یہ تھا کہ وہ بہت پڑھے لکھے تھے اور ان کوتاہ قد بونوں میں ایک قد آور شخصیت تھے‘ ان کے مداح دنیا بھر میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ دنیا بھر کو چھوڑئیے‘ میں خود ان کا مداح ہوں‘ وہ ہمیشہ کہتے تھے‘ لائل پور سے دو لڑکے آئے ہیں‘ عدیم ہاشمی اور افتخار نسیم‘ کیا اچھی غزل کہتے ہیں‘ اور مجھے یقین ہے ہم دونوں نے ان کے اس دعوے کا بھرم بھی رکھا۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے انڈیا موجی گھول گر پڑھا ہوا تھا‘ انہیں اپنے وطن کی مٹی سے بہت پیار تھا‘ مجھے یاد ہے عدیم ہاشمی اور میں باقی مداحین کی طرح ایک دفعہ وزیر آغا صاحب سے ملنے‘ ان کے گاؤں بھی گئے تھے۔ وزیر آغا چلے گئے‘ ہم بھی چلے جائیں گے مگر وہ تمام لوگ جنہوں نے وزیر آغا کے ساتھ زیادتیاں کی تھیں‘ وہ اس کا نتیجہ بھگتنے کیلئے آج بھی زندہ ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا تھا‘ اگر ان کا پڑھا لکھا ہونا اور صاحب علم ہونا‘ ان کے معاصرین کو کھلتا تھا تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے‘ میں کچھ زیادہ نہیں لکھ رہا کیونکہ کالم میں جگہ کم ہوتی ہے اور ڈاکٹر وزیر آغا جیسی شخصیت کے بارے میں لکھنے کیلئے ان جیسا صاحب علم ہونا پڑتا ہے جو کہ میں نہیں ہوں۔ میں صرف ان کے دیرینہ دوست ڈاکٹر انور سدید اور ان کے بیٹے سلیم آغا قزلباش اور ڈاکٹر وزیر آغا کے لاتعداد مداحین سے تعزیت کرتا ہوں۔

Dated : 2010-09-21 00:00:00
 
Top