ڈاکٹر مولوی عبدالحق کا خط گاندھی کے نام

abdulhaq.jpg
حیدر آباد دکن 1947
مکرمی گاندھی جی !
میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو خط لکھوں مگر اس خیال سے باز رہا کہ آپ جیسے عالی مرتبہ لیڈر نے جو دنیا کا وسیع تجربہ رکھتا ہے اور مقبول خاص و عام ہے،قیام امن کے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے تو آپکو اس بارے میں لکھنا سورج کو چراغ دکھانا ہے،لیکن جب میں نے دیکھا کہ باوجود آپکی کوشش کے معاملہ حد سے گزر چکا ہے اور پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے تو میں نے بہت تامل کے بعد چند سطریں آپکو لکھنے کی جرات کی ہے۔
میں نے کھبی ملکی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ میں اپنے آپکو اس کا اہل نہیں سمھجھتا لیکن میں بے خبر بھی نہیں رہا ہوں ، انڈین نیشنل کانگریس،مسلم لیگ اور سیاسی جماعتیں میرے سامنے وجود میں آئیں اور میں انکا لٹریچر برابر پڑھتا رہا ہوں اور میں ان کےبعض لیڈروں اور رازدانوں سے سیاسی امور اورنظریوں کے متعلق باتیں بھی کی ہیں۔اس زمانے میں بہت سے اختلاف اور تنازع پیش آئے لیکن اس وقت جو حالت رونما ہوئی ہے ، اور جسے لکھنے ہوئے قلم کانپتا ہے اور دل خون ہوا جاتا ہے،اس کا کسی کو سان و گمان بھی نہیں تھا۔
آپ نے ضرور غور کیا ہوگا کہ ایسا کیوں ہوا آپ نے اور آپکے ہم خیال کانگریسی لیڈروںنے اس کا سبب دو قوموں کے نظریے اور پاکستان کی تحریک کو قرار دیا ہے۔دو قوموں کے نظریے کا الزام قائد اعظم محمد علی جناح کو دیا گیا ہے۔یہ صحیح نہیں ہے اور واقعات اس کی تائید نہیں کرتے۔یہ نظریا نیا نہیں ہے بہت پرانا ہے اس کے بانی ہندو ہیں۔ جب ملک ہندوستاں کی حکومت 1857 کے بعد باقاعدہ طور پر گورنمنٹ برطانیہ کے ہاتھ میں آئی۔تو اس وقت سے ہندوستان میں قومی احیاء کا حیال پیدا ہوا، اس کو سوامی دیانندسرسوتی کی آریائی تحریک نے بہت زیادہ پختہ اور مستخکم کر دیا۔ اس تحریک کا مقصد ویدک کلچر،ویدک روایات،ویدک مذہب اور سنسکرت زبان کا از سرنو زندہ کرنا تھا۔سوامی جی نے عجیب عجیب طریقوں سےآریا قوم کو سب قوموں سے فائق،آریائی مذہب اور کلچر کو سب مذہبوں اور کلچروں سے برتر اور سنسکرت زبان کو باقی زبانوں سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کی ، اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کی سخت مذمت اور توہین کی اور ہندووں کے دلوں میں مسلمانوں کی طرف سے نفرت پیدا کی۔
اس قومی احیا اور برتری کے خیال نے ایک بات اور سمجھائی وہ یہ کہ اپنی قومیت کے لئے اپنی ایک زبان بھی الگ ہونی چاہیے۔ اس خیال نے دو قوموں کی تعریف کو ایسا مکمل کر دیا کہ پھر انکو ایک ہونے کی کوئی توقع باقی نہ رہی ۔ چنانچہ اس بنا پر ہندووں نے منظم طور پر کوشش کی کہ دفتروں، عدالتوں اور مدرسوں سے اردو خارج کر کے ہندی رائج کی جائے ۔ اس سے ہندووں اور مسلمانوں میں شدید اختلافات اور تنازعہ پیدا ہوا ، یہاں تک کہ سر سید احمد خان جیسا شخص جسکی تمام اصلاحی تحریکیں ،تعلیمی،عملی،معاشرتی،لسان ی خذمات،ملک کے سب باشندوں کیلے یکساں تھیں ۔ کن میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے ، جن میں ہندو مسلمان کی تفریق کا بھولے سے بھی خیال نہیں آیا تھا،بیزار ہو کر یہ کہ اٹھا کہ اب ہم مل کر کام نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ زبان جو ہندو اور مسلمان دونوں کی یکجہتی سے وجود میں آئی اور ان دونوں کی کوشش سے بڑھی اور پھولی پھلی ، اسے صرف اس لئے دیس نکالا جا رہا ہے کہ وہ اسلامی عہد کی یادگار ہے۔ شدھی، سنگھٹن کے ہنگامے میں اس خیال نے زور پکڑ لیا اور آخر میں آپ نے اپنے اصول عدم تشدد کے تحت بڑی خوبی اور ترکیب سے اس بھڑکتی ہوئی آگ پر آہستہ آہستہ تیل چھڑکنا شروع کر دیا جس کے شغلے دور دور تک پہنچے اور آپکی بدولت یہ فتنہ جو شمالی ہند کے بعض خاص علاقوں تک محدود تھا سارے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گیا اسکے بعد کسی کو شک نہ رہا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔
یہ تو تھا مذہبی اور تہذیبی پہلو ۔ اب سیاست کی طرف آیئے ۔ سیاسی اختلافات بھی ہندووں اور مسلمانوں میں نیا نہیں ایک مدر سے چلا آرہا ہے۔ لیکن دونوں قوموں میں بعض ایسے نیک دل اور ملک کے سچے دوست بھی تھے جو اس نوگوار تنازعہ کو سلجھانے کی کوشش کرتے رہے، متعدد بار ایسے مواقع آئے لیکن ہر با ر انڈین نیشنل کانگریس کے بعض سربرآور دہ لیڈروں نے خفیف سی باتوں پر اڑ کر سمجھوتے کو ناکام کر دیا ۔ جب کانگریسی حکومت کا دور آیا تو اس وقت بھی صوبائی حکومتوں کا برتاو مسلمانوں سے اچھا نہ رہا اور کھلےطور پرثابت ہوگیا کہ ان محبان وطن سے انصآف کی توقع رکھنا عبس ہے۔ یہ مواد آہستہ آہستہ پکتا رہا اور آخر پھوٹ بہا۔ تنگ اور بے زار ہو کر مسلمانوں نے تقسیم کا مطالبہ کیا کیونکہ عزت کی زندگی بسر کرنے کی کوئی دوسری صورت نظر نہیں آتی تھی۔
عرض دو قوموں کا نظریہ ہندووں کا پیدا کیا ہوا ہے اور انہی کی بدولت پاکستان کا خیال وجود میں آیا۔ نہ وہ مسلمانوں کو ذلیل و تنگ کرتے نہ یہ نوبت آتی۔
آپ صاحبان نے وفاداری کی رٹ لگا رکھی ہے، یہ آپکا وظیفہ ہوگیا ہے جس کا شب و روز موقع بے موقع ورد کیا جا تا ہے۔ آخر یہ وفاداری ہے کیا بلا ؟ اپ چاہتے کیا ہے ؟ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہر مسلمان جو ہندوستان میں آباد ہے آپ کو لکھ دے کہ میں پاکستان سے ہمدردی نہیں رکھتا۔اس کا مخالف ہوں۔ گاندھی جی وفاداری بازار میں نہیں بکتی ! اگر آپکو مسلمانوں سےوفاداری چاہیں تو یہ آپ کے ہاتھ میں ہے ان کے ہاتھ میں نہیں۔ اگر آپ ان سے انصاف انسانیت شرافت کا برتاوں کرینگے تو وہ آپکےسب سے زیادہ وفادار اور جان نثار ثابت ہونگے۔لیکن اگر آپنے اپنی روش نہ بدلی اور ییہی طریقہ جاری رکھا اور مسلمانون کو غیر وفادار غددار،ففتھ کالمسٹ کہ کر انکا دل دکھاتے رہے تو آپکو سچی وفاداری کی توقع رکھنی نہیں چاہیں ۔ اپ نے اپنے عبادتی جلسوں میں جس قسم کی تقریروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ تضیع اوقات ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ملک کے حق میں مضرت رساں ثابت ہوتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وخشیانہ اور خونریز ہنگامے سے آپ کے دماغ پر بھی کچھ اثر پڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات آپ اپنے منصب سے تجاوز کر جاتے ہیںِ
اگر آپ نے کشمیر کے معاملے میں سوچ سمجھ سے کام نہ لیا اور اپنی ضد پر قائم رہے تو یہ مسلہ یہی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پاکستان اور ہندوستان دونوں میں تلہکہ مچ جائے گا اور خون کی ندیاں بہہ جایگی ۔ اسکی روک تھام ابھی سے ہونے چاہیں اس بارے میں آ پ بہت کچھ کر سکتے ہیں یہ مانا کہ آپ گورنمنٹ نہیں لیکن گورنمنٹ گر تو ہیں اور اس پر آپ کا جو غیر معمولی اثر ہے وہ کسی دوسرے کا نہیں ہے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یہ پالیسی کہاں تک حق بجانب ہے آپکی حکومت کے بعض ذمہ دار لیڈروں نے اس امر کا بار بار اعادہ کیا ہے کہ ہندوستان کو پھر ایک ہونا پڑے گا اور تقسیم کالعدم ہوجائے گی ، اسی کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ آپکی حکومت پاکستان پر چڑھائی کر کے اسے فتخ کرے یا یہ کہ آپ پاکستان اور مسلمانوں کو اس قدر تنگ اور زچ کر دیں کہ وہ مجبور اور عاجز ہو جائیں ۔ ایسے نازک زمانے میں جبکہ ملک پر مصیبت کی گھٹا چھائی ہوئی ہے ذمہ دار ارباب حکومت کا عام جلسوں میں ایسی باتیں کرنا کیاں تک قرین مصلحت ہے ؟ ایک طرح یہ لڑائی کا چیلنج ہے اس طول بیان کی اپ سے معافی چاہتا ہوں ممکن ہے بعض باتیں آپ کے خلاف مزاج ہوں۔
مخلص
عبدالحق
ربط http://pak.net/?p=3935
 
Top