ایاز صدیقی چہرہءوقت سے اٹھے گا نہ پردا کب تک

مہ جبین

محفلین
چہرہء وقت سے اٹھے گا نہ پردا کب تک
پسِ امروز رہے گا رخِ فردا کب تک
اُس کی آنکھوں میں نمی ہے مِرے ہونٹوں پہ ہنسی
میرے اللہ یہ نیرنگِ تماشا کب تک
یہ تغافل ، یہ تجاہل ، یہ ستم ، یہ بیداد
کب تک اے خانہ بر اندازِ تمنا کب تک
بن گیا گردشِ دوراں کا نشانہ آخر
لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ تنہا کب تک
کب تک آنکھوں کے جزیروں میں بٹے گا تِرا غم
قلزمِ جاں میں نہ اترے گا یہ دریا کب تک
اپنے ذروں سے تراشو کوئی سورج کوئی چاند
زرد چہروں پہ یہ مانگے کا اجالا کب تک
تم مٹاؤ گے کہاں تک مِرے خوابوں کے نقوش
میں نکھاروں گا خدو خالِ تمنا کب تک
دیکھیں کب تک دلِ مضطر کو قرار آتا ہے
دیکھیں ہوتا ہے سیہ پوش یہ شعلہ کب تک
آئیے گنبدِ بے در میں دریچے کھولیں
کیجئے سیرِ تماشا گہء دنیا کب تک
یہ اچٹتے ہوئے منظر ، یہ ڈھلکتے ہوئے خواب
چشمِ بیدار کہاں تک ، دلِ بینا کب تک
چل کے دو چار قدم ہوگیا خاموش آخر
ساتھ چلتا مِرے ہنگامہء دنیا کب تک
ایاز صدیقی
 

سید زبیر

محفلین
بن گیا گردشِ دوراں کا نشانہ آخر
لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ تنہا کب تک
بہت خوب ، ، ، ، انتخاب کی داد قبول کیجئیے جزاک اللہ
 
Top