چھپائی کا فن انگلستان میں

نکتہ ور

محفلین
چھپائی کا فن انگلستان میں
انگلستان میں پہلا انگریزی کا چھاپہ خانہ ولیم کیکسٹن کا بتایا جاتا ہے۔ ابتدا میں وہ ایک سوداگر تھا لیکن اسے ادبی کتابوں سے بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ ایک اچھا مترجم بھی تھا۔ اسی وجہ سے اسے طباعت کے پیشے میں بڑی شہرت ملی۔ 1474ء میں اس نے ویسٹ منسٹر انگلستان میں پہلا مطبع قائم کیا۔ اس نے 1491ء میں اپنے انتقال تک تقریباً 100 کتابیں چھاپ کر رکھ دی تھیں۔ جس میں اس کے اپنے بعض تراجم اور قومی ادبیات سے متعلق کتب تھیں۔ چاسر کی مشہور کتب ’’کینٹبیری کی ہدایتیں‘‘ بھی ان میں شامل تھیں۔ انگلستان میں پندرھویں صدی کے آخر تک جان لائن‘ ولیم دل شینا اور رچرڈ پسنسن جیسے ناشر بہت مشہور تھے۔ ان لوگوں نے انگلستان میں رومن ٹائپ کو رائج کیا تھا۔
یورپ میں چھاپے خانے جس تیزی سے قائم ہوئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پندرھویں صدی کے اختتام سے قبل فرانس کے چالیس شہروں اور قصبوں میں پریس قائم ہو گئے تھے۔ ولیم کیکسٹن نامی مالکان مطبع نے انگریزی کی کتاب ’’دی کال آف دی ہسٹری آف ٹرائے‘‘ شائع کی اور انہوں نے 1476ء میں انگلستان میں ویسٹ منسٹر میں پہلا پریس کھولا۔ کیکسٹن وہیں 1484ء تک کام کرتا رہا۔
1501ء سے پہلے چھپی ہوئی کتابوں کو جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے‘ ان کیونا بلا (Incunabula) کہا جاتا ہے۔ اس کے معنی ہیں’’کتابوں کا بچپنا (Cardle Book) ان کتابوں میں دلچسپی زیادہ تر اٹھارھویں صدی عیسوی سے شروع ہوئی۔ پندرھویں صدی میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ انسان کا ذہن فرسودہ قدیم توہمات سے نجات حاصل کرنے کی جنگ کرنے لگا۔ عوامی تحریک شروع ہوئی اور لوگ خانقاہی تسلط کے اندھیروں سے روشنی کی جانب بڑھنے لگے۔ چھپائی کی ایجاد نے خانقاہی نظام کو مسمار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لوتھر جو تحریک کا بانی تھا‘ اس کے پمفلٹ کی چار ہزار کاپیاں پانچ دن میں چھپ کر انگلستان میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں۔ جرمن اس جہاد میں پیش پیش تھے وہاں لوتھر کی ترجمہ کی ہوئی بائبل اور دوسرا علمی مواد 1522ء میں ستمبر سے دسمبر تک ناقابل یقین تعداد میں شائع ہوا۔ انگلستان میں اس بائبل کے سو ایڈیشن 15 سال میں بیس ہزار فروخت ہوئے۔
گاٹن برگ نے چھپائی کی جو نئی راہیں دکھائیں‘ اس نے چھپائی کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 50 سال کے عرصہ میں یورپ کے 20 شہروں میں تقریباً 1100 چھاپے خانے حرکت میں تھے۔ انیسویں صدی تک گاٹن برگ کا طریقہ چھپائی تقریباً اسی طرح قائم رہا۔
صنعتی انقلاب نے انجینئرنگ کی دنیا میں حیرت انگیز تبدیلیوں سے ہر شعبے کو متاثر کیا جس میں چھپائی کا شعبہ بھی شامل ہے اور چھپائی کی رفتار تیز سے تیز تر ہونا شروع ہوئی۔ یورپ میں 1800 ء میں اس سلسلے میں پہلا بڑا قدم اس وقت اٹھایا گیا‘ جب ارل اسٹان ہوپ نے لوہے سے پریس تیار کیا۔ یہ ابتدائی پریس ہاتھ سے چلتا تھا۔ 29 نومبر 1814ء کو مشہور اخبار دی ٹائمز (The Times) ایسے پریس میں چھپا جو بھاپ کی طاقت سے چلتا تھا۔ اس کی ایجاد کا سہرا ’’فرینڈرک کوننگ‘‘ کے سر ہے۔ کوننگ نے گھومتے ہوئے پہیے کا اصول استعمال کیا جبکہ اس سے پہلے تک چھپائی چوڑے تختے نما شکنجے کے ذریعہ جس میں ٹائپ سیٹ کیے ہوتے تھے‘ کو ایک حرکت کے ذریعے دوسرے تک پہنچایا جاتا تھا جس پر کاغذ رکھا ہوتا تھا۔ یہ عمل بہت سست تھا۔ جب پہیے کے گھومنے سے چھپائی کی مشین چلنا شروع ہوئی تو اس پہیے سے چھپائی کی رفتار شاید پچاس پرنٹ فی گھنٹہ تھی۔ یہ رفتار اٹھارھویں صدی کے اختتام تک تقریباً 300 تک پہنچ چکی تھی۔ کوننگ کے دو سلنڈر کے پریس کے ذریعے یہ رفتار گیارہ سو پرنٹ فی گھنٹہ ہو گئی اور اس پریس کو مزید ترقی دے کر جب چار سلنڈر سے چلایا گیا تو چھپائی کی رفتار 1828ء میں چار ہزار فی گھنٹ ہو گئی تھی۔ روٹری پریس کے ذریعہ جو 1848ء میں تیار ہوا‘ یہ رفتار بڑھ کر آٹھ ہزار ہو گئی تھی۔
صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں چھپائی کی مشینوں میں تبدیلی ضرور ہوئی اور خودکار مشینیں تیار ہونے لگیں لیکن کمپوزنگ کے سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی۔ انیسویں صدی کے آخر تک ہاتھ ہی سے کمپوزنگ ہوتی رہی۔ 1883ء میں امریکہ میں ایک جرمن باشندے مارجن تھیلر نے ایک مشین ایجاد کی جو چھپائی کی پوری سطر ڈھال دیتی تھی۔ اس طرح دو سال کے بعد لائینو ٹائپ مشین تیار ہو گئی۔ 1890ء میں مونوٹائپ مشین تیار ہوئی جس میں حروف ایک ہی وقت میں ڈھلنے کی جگہ ایک کاغذ میں سوراخ بنا کر دوسری مشین کے ذریعے ڈھالے جاسکتے ہیں۔ ایک عام کمپوزیٹر ایک گھنٹے میں تقریباً پندرہ سو حروف سیٹ کر سکتا ہے۔ جبکہ مونو اور لائینو سے اسی وقت میں چھ ہزار حروف سیٹ کیے جا سکتے ہیں۔
کمپوزنگ کے سلسلے میں مزید پیش رفت فوٹو کمپوزنگ کی شکل میں بنائی گئی۔ اب کمپیوٹر کے استعمال کے بعد کمپوزنگ کی دنیا ہی بدل گئی۔ چھپائی کی دنیا میں دوسرابڑا انقلاب لیتھو گرافی طریقہ سے چھپائی ہے جس کو عرف عام میں آفسٹ چھپائی کہا جاتا ہے۔ ابھرے ہوئے حروف سے چھپائی کے برخلاف یہ ہموار سطح سے چھپائی کا طریقہ ہے اور اس طریقہ نے چھپائی کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ خصوصاً تصویروں کی چھپائی میں اس کی ایجاد کا سہرا الائوس سینے فیلڈر (Aloissenefelder) کے سر جاتا ہے۔ جس نے اس سائنسی اصول کو استعمال کیا کہ پانی اور گریس ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہیں۔ اس اصول کو استعمال کرتے ہوئے پلیٹ کی سطح چھپنے والی اور نہ چھپنے والی جگہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اگر تصویر کسی چکنی شے سے ایک خاص قسم کے پتھر پر بنائی جائے اور پھر اس پر پانی بہایا جائے تو چکنی جگہ یعنی تصویر روشنائی قبول کر لے گی کیونکہ روشنائی خود چکنی ہوتی ہے اور اس روشنائی کا عکس (Impression) کاغذ پر منتقل ہو جاتاہے۔ آج کی ہموار سطح کی چھپائی کی تمام مشینیں اسی اصول پر تیار کی جاتی ہیں۔ اس طریقے سے چھپائی بہت نفیس ہوتی ہے اور چھپنے والی چیز کی چھوٹی چھوٹی تفصیل پوری طرح کاغذ پر منتقل ہو جاتی ہے۔ ٭…٭…٭

شرافت علی

ربط
 

محمد وارث

لائبریرین
بالکل!! Geoffrey Chaucer کی The Canterbury Tales انگریزی ادب میں ماسٹرز کے نصاب کا حصہ بھی ہے۔ آپ نے پڑھ رکھی ہے وارث بھائی؟؟
شاید! کسی زمانے میں مجھے انگریزی ادب پڑھنے کا تھوڑا بہت شوق تھا اور کچھ مشہور شہرہ آفاق ناولز انہی دنوں پڑھے تھے، یہ بھی تھی لیکن بہرحال یہ بہت مشہور کتاب ہے، چوسر تو انگریزی ادب کا باوا آدم ہے :)
 
Top