چھان بین کی چھلنی اورقائداعظم...طلوع … ارشاد احمد عارف

اپنے مداحوں کو حیران بلکہ پریشان کرنے میں جناب اعتزازاحسن کاجواب نہیں۔ این آر اوکے خلاف عدالت ِ عظمیٰ کے تاریخی فیصلے کی تائید کرتے کرتے اچانک انہوں نے عملدرآمد نہ کرنے والے وزیراعظم گیلانی کے وکالت نامے پر دستخط کئے تو لوگوں کوحیرت ہوئی۔ صاف ستھرے کردار کے مالک اعتزازاحسن نے جب یہ کہا کہ ”قائداعظم آئین کے آرٹیکل 62,63 کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے اور اگر موجودہ انتخابات میں امیدوارہوتے تو نااہل قرارپاتے“ تو ان کے مداحوں کو صدمہ ہوا۔
62,63 کی روح کیا ہے؟ عوامی نمائندہ دیانتدار، صادق، امین اور اچھے اخلاق وکردار کا مالک ہو۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ قائداعظمان اوصاف کے حامل نہ تھے۔ گاندھی اور پٹیل جیسے شدید مخالفین نے ہمیشہ قائد کی امانت و دیانت اور صدق بیانی کا اعتراف کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ان کے موقف میں کبھی جھول تلاش نہ کرسکا اور خیبرپختونخوا کے سابق گورنر سر اولف اوکار (1946) نے کہا ”جناح ایک سیاستدان سے زیادہ عظیم تھے۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق وہ مجدد تھے جو صدی میں ایک ہی ہوتاہے۔“
سیاستدان جس داؤ پیچ اور لین دین کو اپنا طرہ ٴ امتیاز قرار دیتے ہیں ان کے بارے میں قائداعظم کا نقطہ نظر یہ تھا ”مائی بوائے سیاست میں اخلاقیات نجی زندگی سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے کیونکہ اگر تم پبلک لائف میں کوئی غلط کام کرتے ہو تو ان ہزاروں لوگوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہو جو تم پر اعتماد اور انحصار کرتے ہیں۔“ مشہور نیشنلسٹ لیڈر گوکھلے نے ان کے بارے میں کہا ”جناح سچائی کا مجسمہ تھے“ مولانا حسرت موہانی نے تنہائی میں قائداعظم  کو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز گڑگڑاتے دیکھا اور سندھ کے انتخابات 1946 میں انتخابی مہم کے انچارج جی الانہ سے قائدنے فرمایا ”میں بددیانتی اور دھاندلی سے جیتنے کے بجائے انتخاب ہارنے کو ترجیح دوں گا۔“
اقبال نے جن کے بارے میں کہا کہ ”انہیں کوئی کرپٹ کرسکتا ہے نہ خرید سکتاہے“ اس کے بارے میں کوئی دانشور، قانون دان اورقلمکار و سیاستدان اگر 62,63 پرپورا نہ اترنے کی بات کرے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ”ناطقہ سریگریباں ہے، اسے کیا کہئے؟“ کیا قائداعظم کا حوالہ دے کر موجودہ دورکے جعلی ڈگری ہولڈرز، بنک ڈیفالٹرزاور ٹیکس چوروں کی وکالت سے گریز نہیں کیا جاسکتا؟
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سابقہ حکومت نے پانچ سال میں 10ارب ڈالر کی کرپشن کی اور خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح 29 فیصد سے 49فیصد تک پہنچادی ۔ غیرملکی قرضوں میں بھی 37ارب ڈالر کااضافہ ہوااور یہ ان خائن، کذاب اوربددیانت عوامی نمائندوں کا کیا دھرا ہے جوپانچ سال تک اس ملک کو گِدھوں کی طرح نوچتے رہے۔ اب قومی اداروں اورعوام کو ایک بار پھر جُل دے کر پارلیمانی ایوانوں میں پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ لوٹ کھسوٹ کابازار نئے سرے سے گرم کرسکیں۔
بجا کہ قوم اورسیاسی جماعتیں فرشتے کہاں سے لائیں؟ مگر کیا ضروری ہے کہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر شیطانوں کو ستم رسیدہ قوم کی گردن اوروسائل پر مسلط کر دیا جائے، کیا اٹھارہ کروڑ عوام میں ایک ہزار صاق وامین، باکردار، دیانتدار اورعوامی خدمت کے جذبے سے سرشار لوگ موجود نہیں کہ انہیں اس بار موقع دیا جائے؟ نامزدگی فارموں اور ریٹرننگ افسروں کے سوالات کے حوالے سے اعتراضات بھی عجیب وغریب ہیں۔ عوامی نمائندوں سے ذاتی و خاندانی نوعیت کی معلومات لینے کا مقصد کیا ہے؟ ان سے جنرل نالج کے سوالات کیوں کئے جارہے ہیں اور کلمہ طیبہ سننے کی تُک کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
امریکہ و یورپ کا ویزا فارم بھرتے ہوئے یہ سیاستدان اور ان کے مداح و خیرخواہ دانشور ذاتی و خاندانی، سماجی و معاشی معلومات فراہم کرتے ہوئے کبھی نہیں جھجکے، انہیں غیرملکی ایئرپورٹوں پر جوتے اور کپڑے اتروا کرتلاشی دیتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی اور بسا اوقات تین تین گھنٹے بٹھا کر چھان بین پر بھی اعتراض نہیں ہوا مگر کلمہ طیبہ سناتے، فارم بھرتے اور اقبال و قائداعظم کے یوم پیدائش کی تاریخ بتاتے ہوئے توہین محسوس ہوتی ہے۔ بعض نے قائداعظم کا یوم پیدائش 23 مارچ بتایا حالانکہ ان میں سے کچھ اداکارہ میرا، نرگس اور ویناملک کی سالگرہ اور تحفہ بھیجنا کبھی نہیں بھولے۔
اچھے، ایماندار اور خدمت گزار عوامی نمائندوں کا راستہ روکنے کے لئے سارے لوٹے اورلٹیرے اکٹھا ہوگئے ہیں اوروہ نگران حکومت اورالیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھا رہے ہیں تاکہ مکر وفریب اور کذب و ریا کا موجودہ سیاسی، انتخابی، معاشی اورسماجی ڈھانچہ برقرار رہے۔ یہ نہیں چاہتے کہ عوامی نمائندوں کی تطہیر ہو اور قوم بدلتا ہوا پاکستان دیکھ سکے۔ عوام بالخصوص نوجوان انتخابات کو آخری امید اور تبدیلی کی علامت سمجھ رہے ہیں مگر بعض لوگ طرز کہن پہ اڑے اِدھراُدھر کی ہانک رہے ہیں اور ہرگز سوچنے پر آمادہ نہیں کہ انتخاب لڑنا کسی کا بنیادی حق نہیں آئین اور قانون کے تابع مشروط حق ہے اس لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں کو یہ شرائط پوری کرنا پڑیں گی اور خواہ آسمان ٹوٹ پڑے یا زمین پھٹ جائے قانونی تقاضوں کی تکمیل ہونی چاہئے۔ اگر خدانخواستہ تبدیلی کی آس لگائے جذباتی، بے چین اور مشتعل عوام اور نوجوان مایوس ہوگئے تو نتیجہ کیا نکلے گا اوروہ کس طرف دیکھیں گے؟
قائد نے پاکستان بدکردار جاگیرداروں، بددیانت سرمایہ داروں اورخائن وڈیروں کے لئے نہیں بنایا تھا۔ 1943 میں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ”یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کرنا چاہتا ہوں جوہمارا خون چوس کر ایک خبیث اور فاسد نظام کے تلے پلے بڑھے، عوام کا استحصال ان کے رگ وپے میں داخل ہو گیا ہے… کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہ پاکستان کا مقصد ہے؟ اگر پاکستان کا تصور یہ ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں لوں گا…“ سو تطہیر کی چھلنی سے ہر امیدوار کو گزرنا قائداعظم کے معیارِ سیاست، قیادت اور تصورِ پاکستان کی تکمیل ہے کسی کو گھبرانا نہیں چاہئے۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 

نایاب

لائبریرین
بجا کہ قوم اورسیاسی جماعتیں فرشتے کہاں سے لائیں؟ مگر کیا ضروری ہے کہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر شیطانوں کو ستم رسیدہ قوم کی گردن اوروسائل پر مسلط کر دیا جائے، کیا اٹھارہ کروڑ عوام میں ایک ہزار صاق وامین، باکردار، دیانتدار اورعوامی خدمت کے جذبے سے سرشار لوگ موجود نہیں کہ انہیں اس بار موقع دیا جائے؟ نامزدگی فارموں اور ریٹرننگ افسروں کے سوالات کے حوالے سے اعتراضات بھی عجیب وغریب ہیں۔ عوامی نمائندوں سے ذاتی و خاندانی نوعیت کی معلومات لینے کا مقصد کیا ہے؟ ان سے جنرل نالج کے سوالات کیوں کئے جارہے ہیں اور کلمہ طیبہ سننے کی تُک کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ​
امریکہ و یورپ کا ویزا فارم بھرتے ہوئے یہ سیاستدان اور ان کے مداح و خیرخواہ دانشور ذاتی و خاندانی، سماجی و معاشی معلومات فراہم کرتے ہوئے کبھی نہیں جھجکے، انہیں غیرملکی ایئرپورٹوں پر جوتے اور کپڑے اتروا کرتلاشی دیتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی اور بسا اوقات تین تین گھنٹے بٹھا کر چھان بین پر بھی اعتراض نہیں ہوا مگر کلمہ طیبہ سناتے، فارم بھرتے اور اقبال و قائداعظم کے یوم پیدائش کی تاریخ بتاتے ہوئے توہین محسوس ہوتی ہے۔ بعض نے قائداعظم کا یوم پیدائش 23 مارچ بتایا حالانکہ ان میں سے کچھ اداکارہ میرا، نرگس اور ویناملک کی سالگرہ اور تحفہ بھیجنا کبھی نہیں بھولے۔​
عارف صاحب نے بہت خوب لکھا اور سچ لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top