کاشفی

محفلین
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
چپ چاپ کر کے کام وہ بزدل کہاں گیا
جذباتِ التفات کا قاتل کہاں گیا

آتے ہی جس نے شمع بجھادی بلا سبب
وہ نامراد دشمنِ محفل کہاں گیا

تم ہی تلاش کرکے بتا دو کچھ اسکا حال
ہم کو تو یہ پتہ ہی نہیں دل کہاں گیا

ہم تو مقابلے کو بھنور سے نکل پڑے
یہ تم خیال رکھنا کہ ساحل کہاں گیا

پیدا ہو جس سے قلب میں کچھ کیف و اضطراب
تقریر کا وہ نقطہِ حاصل کہاں گیا

جس دن سے مجھ پہ ٹوٹ پڑا غم کا اک پہاڑ
رہتا تھا ہر خوشی میں جو شامل کہاں گیا

جاوید آج پاس ہے منزل کے کس قدر
اور دیکھ اسکا مدِ مقابل کہاں گیا
 
Top