چوہدری اور بنگالی

شعیب اصغر

محفلین
ایک دفعہ ایک چوہدری ریل کا سفر کر رہا تھا۔ ڈبے میں اس کا ایک ہمسفر بنگالی بابو تھا۔ چوہدری ہٹا کٹا، اور لمبا تڑنگا۔ جبکہ بنگالی دبلا پتلا، بنگالی نے اپنا صندوق اٹھا کر اوپر والی سیٹ رکھنے کوشش کررہا تھا، اس سے اٹھ نہیں رہا تھا۔ چوہدری اپنی جگہ سے اٹھا اور آرام سے صندوق اٹھا کر اوپر والی سیٹ پر رکھ دیا اور بنگالی سے طنزیہ لہجے میں بولا۔

"اوئے بنگالیو۔۔۔۔۔۔ کنک ( گندم ) تے دودھ مکھن کھایا کرو، طاقت آؤندی اے۔ مچھی چاول کھا کھا مکھی مارن جوگے وی نہیں!"
بنگالی بے چارہ چپ ہورہا۔ تھوڑی دیر بعد بنگالی نے تازہ ہوا کے لیے کھڑکی کھولنے کی کوشش کی، کامیاب نہ ہوسکا۔ بہت زور لگایا لیکن کھڑکی پھر بھی نہ کھلی۔ چوہدری اٹھا اور آستینیں چڑھا کر زور لگا کر کھڑکی کھول دی، اور پھر اس کو کہا کہ "اوئے بنگالیو، چاول کی بجائے کنک کھایا کرو۔ طاقت آؤندی اے۔"
بنگالی پھر چپ رہا۔ تھوڑی دیر بعد اسے بھوک لگی، اس نے اپنا کھانے والا ٹفن کھولنے کی کوشش کی مگر اس کا ڈھکنا پھنسا ہوا تھا، اسے زور لگاتا دیکھ کر چوہدری نے اس کے ھاتھ سے ڈبا لیکر زور لگا کر ڈبا کھولا، اس میں مچھلی چاول دیکھ کر بولا۔
"اوئے۔۔۔ ۔۔ فیر چاول تے مچھی، تینوں میں بار بار کیہہ رہیا واں۔ کنک تے دودھ مکھن کھایا کرو، جان بن دی تے طاقت آؤندی اے"۔

اب کی بار بنگالی کو غصہ آگیا۔ اس نے اٹھ کر گاڑی روکنے والی زنجیر کھینچنے کی کوشش کی تاکہ گاڑی رکے اور ریل کا ڈبہ بدل سکے، مگر وہ زنجیر بھی نہ کھینچ سکا، وہ واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا، چوہدری یہ دیکھ کراٹھا، ایک جھٹکے سے زنجیر کھینچی، گاڑی رک گئی، چوہدری نے پھر بنگالی کو طنزیہ لہجے میں کہا۔
"ویکھیاں نیں کنک دیاں طاقتاں۔ توں وی کنک کھایا کر"۔

گاڑی رکی تو ریلوے پولیس آگئی اور مسافروں سے پوچھنے لگی کہ زنجیر کس نے کھینچی تھی؟ سب مسافروں نے چوہدری کی طرف اشارہ کیا۔ پولیس والوں نے چوہدری سے وجہ پوچھی۔ اب چوہدری کے پاس وجہ ہوتی تو وہ کچھ بتاتے۔ پولیس نے بلاوجہ زنجیر کھینچ کر گاڑی روکنے کے جرم میں چوہدری کو گرفتار کر کے ہتھکڑی پہنا دی۔ جب پولیس والے چوہدری کو گرفتار کر کے ساتھ لے جارہے تھے تو پیچھے سے بنگالی بابو نے آواز لگائی۔
"چوہدری جی۔۔۔ مچھلی چاول بھی کبھی کھا لیا کرو۔۔۔ اس سے عقل آتی ہے۔"
 
Top