انیس الرحمن
محفلین
چوکا کا آدم خور شیر
جم کاربٹ
چوکا۔۔۔ جس نے لدھیا وادی کے آدم خور شیر کو چوکا کے آدم خور کا نام دیا۔ لدھیا وادی کے قریب دریائے ساروا کے دائیں کنارے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے شمال مغربی کنارے سے ایک راستہ ایک چوتھائی میل چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جس کا ایک تہائی حصہ تو ٹھک جاتا ہے اور دوسرا حصہ پہاڑیوں میں سے بل کھا کر کوٹی کندری میں ختم ہو جاتا ہے۔ کوٹی کندری ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جس کے مالک چوکا کے باشندے ہیں۔۱۹۳۶ء موسم سرما کا ذکر ہے کہ اس موخرالذکر راستے پر ایک آدمی اپنے بیلوں کے ہمراہ جارہا تھا۔ جب وہ چوکا کے قریب پہنچا تو اچانک ایک شیر جھاڑیوں سے نکل کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس آدمی نے انتہائی جرات سے کام لیا اور وہ شیر اور بیلوں کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ وہ شیر کو ڈرانے کے لیئے اونچی آواز میں شور مچانے لگا اور ساتھ ہی اپنی لاٹھی گھمانے لگا۔ بیلوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور سرپٹ گاؤں کی طرف بھاگ گئے۔ جب شیر نے اپنے شکار کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو اس نے اپنی توجہ اس آدمی پر مرکوز کردی۔ شیر کے خطرناک ارادے کو بھانپتے ہوئے وہ آدمی پیچھے کو مڑا اور انتہائی تیز رفتاری سے بھاگنے لگا۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ شیر چھلانگ لگا کر اس پر کود پڑا۔ اس آدمی کے کندھوں پر ایک بھاری ہل تھا اور اس کی پشت پر ایک بوری تھی جس میں اس نے اپنی ضروریات کی چیزیں باندھ رکھی تھیں۔ شیر نے اپنے دانت اس بوری میں گاڑ دیئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس آدمی نے بوری کو وہیں پھینک دیا اور مدد کے لیئے شور مچاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔ اس کا واویلا سن کر گاؤں سے اس کے رشتہ دار اور دوست اس کی مدد کو دوڑے چلے آئے لیکن وہ آدمی مزید کسی حادثے کے بغیر گاؤں پہنچ گیا۔ شیر کا ایک پنجہ اس کے دائیں کندھے پر اس زور سے پڑا تھا کہ وہاں ایک گہرا زخم چھوڑ گیا تھا۔
جون ۱۹۳۷ کا ذکر ہے کہ سات آدمی اور دو لڑکے ٹھک سے دو سو گز مغرب کی طرف مویشی چرا رہے تھے۔ دس بجے کے قریب انہیں خیال آیا کہ ان کے کچھ مویشی بھٹک کر جنگل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک چودہ سالہ لڑکے کو انہیں جنگل سے لانے کے لئے بھیجا۔ لڑکے کو بھیج کر یہ لوگ ایک سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سوگئے اور تقریباً چھ گھنٹے بعد بیدار ہوئے تو جنگل میں ایک ہرن کے بولنے کی آواز سنائی دی جو اس سمت سے آ رہی تھی جدھر مویشی بھٹک کر گئے تھے۔ ان آدمیوں نے ایک دوسرے لڑکے کو جس کی عمر بھی تقریباً چودہ برس تھی پہلے لڑکے کے سراغ میں بھیج دیا۔ جونہی وہ جنگل میں داخل ہوا مویشی ایک دم افراتفری کے عالم میں ایک ندی کی طرف دوڑے۔ ندی کے قریب ایک شیر ایک گائے پر کود پڑا اور سات آدمیوں کے سامنے اسے ہلاک کردیا۔ مویشیوں کی بھاگ دوڑ اور آدمیوں کے شور شرابے سے گاؤں والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں ندی کے سامنے والی کھلی زمین پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ ان لوگوں میں دوسرے لڑکے کی ماں بھی تھی جو بیوہ تھی۔ جب اس نے لوگوں کو اپنے بیٹے کا نام پکارتے سنا تو وہ ان کی طرف صورتحال معلوم کرنے کے لئے گئی۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا جنگل میں مویشیوں کو ہانکنے کے لئے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تو وہ خود اس کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس لمحے پہلے لڑکے کے والدین بھی وہاں پہنچ گئے اور جب انہوں نے ان سات آدمیوں سے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے تو اسے صبح دس بجے سے ہی نہیں دیکھا۔
بیوہ عورت کے پیچھے تمام لوگ بھی جنگل میں داخل ہو گئے وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اسے اپنے بیٹے کی لاش دکھائی دی اور اس کے قریب ہی جھاڑی میں پہلا لڑکا بھی مرا پڑا تھا۔ شیر نے اس کے جسم کا ایک حصہ کھا لیا تھا۔ دونوں لاشوں کے بیچ ایک بچھڑا مرا پڑا تھا۔ بعد میں جب مجھے اس المناک حادثے کی تفصیل بتائی گئی تو میں نے اندازہ کیا کہ اس روز شیر جنگل میں اس کھلی زمین کے پاس ہی کہیں لیٹا تھا جہاں مویشی چر رہے تھے اور جب بچھڑا جو آدمیوں کے دیکھے بغیر جنگل میں چلا گیا تھا شیر کے قریب آیا تو اس نے اسے ہلاک کردیا اور ابھی وہ اسے اٹھا کر چلنے بھی نہ پا یا تھا کہ پہلا لڑکا اس کی تلاش میں وہاں آ نکلا اور شیر نے اسے بھی ہلاک کردیا۔ اس کے بعد شیر دونوں شکاروں کے پاس چار بجے شام تک لیٹا رہا۔ تب ایک ہرن پانی پینے کی غرض سے گزرا تو اس نے شیر کی بو سونگھ کر بلند آواز میں بولنا شروع کردیا۔ یہ آواز سن کر ان آدمیوں کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ ان کے مویشی جنگل میں چلے گئے تھے اور انہوں نے دوسرے لڑکے کو انہیں واپس ہانکنے کے لئے جنگل میں بھیجا۔ بدقسمتی سے وہ لڑکا بھی سیدھا وہاں جا پہنچا جہاں شیر اپنے شکاروں کی حفاظت کررہا تھا اور اس نے اسے بھی ہلاک کردیا۔
دوسرے لڑکے کی موت کے شاہد مویشی بھی تھے۔ جو اس کی مدد کے لئے فورا وہاں آئے۔ انہوں نے شیر کو وہاں سے بھگا دیا اور خود بھی ڈر کے مارے افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اپنے شکار سے محروم ہونے پر شیر کو غصہ آیا اور وہ بھگوڑے مویشیوں کے پیچھے بھاگا اور آخری گائے پر کود کر اپنا انتقام لے لیا۔ اگر مویشی گاؤں کی سمت نہ بھاگتے تو ممکن تھا کہ شیر کے انتقام کی آگ فقط ایک ہی مویشی کے ہلاک کرنے سے نہ بجھتی۔
ان ظالمانہ حملوں سے نینی تال اور الموڑا کے ضلعوں میں ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور شیر کو ہلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی۔ ضلع کے بعض افسر رات رات بھر مچانوں پر بیٹھے رہے مگر فقط دو مرتبہ شیر کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس کے بعد شیر نے انتقامی جذبے کے تحت زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا اور خاص طور پر ٹھک کے گاؤں میں۔
ٹھک سے دو سو گز اوپر کی طرف گندم کا ایک کھیت ہے۔ اس میں فصل کاٹی جاچکی تھی اور دو لڑکے مویشی چرا رہے تھے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ اپنی حفاظت کے لئے وہ کھیت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ کھیت کے شمالی کنارے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ وہاں سے کوئی پہاڑی شروع ہوجاتی تھی جو کوئی ایک ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس پہاڑی پر سے دونوں لڑکے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شام کے قریب ان کی ایک گائے بھٹک کر جھاڑیوں کے جھنڈ کی طرف چلی گئی۔ دونوں لڑکے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اسے ہانکنے کے لئے ادھر گئے۔ بڑا لڑکا آگے تھا۔ جونہی وہ ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا تو شیر جو وہاں چھپا بیٹھا تھا اس پر کود پڑا۔ چھوٹا لڑکا خوف کے مارے گاؤں کی طرف دوڑا اور چوپال میں بیٹھے ہوئے چند آدمیوں کے قدموں میں سسکیاں بھرنے لگا۔ جب لڑکے میں بولنے کی طاقت آئی تو اس نے بتایا کہ ایک بڑے لال رنگ کے جانور نے اس کے بھائی کو ہلاک کردیا ہے۔ اس نے زندگی میں پہلی بار شیر کو دیکھا تھا۔ اسی وقت دیہاتیوں کا ایک گروہ بڑی دلیری سے خون کی لکیر کے پیچھے پیچھے جنگل میں لڑکے کی لاش ڈھونڈنے چل پڑا۔ چونکہ رات قریب تھی لہذا وہ لوگ کوئی ایک میل جنگل میں چل کر واپس ٹھک آ گئے۔ دوسرے دن آس پاس کے دیہات کے لوگوں کی مدد سے انہوں نے پھر اپنی تلاش شروع کردی۔ لیکن سارے دن کی تلاش کے بعد انہیں فقط اس لڑکے کی سرخ ٹوپی اور خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے مل سکے۔ چوکا کے آدم خور کا یہ آخری شکار تھا۔
چوکا کے آدم خور شیر کے ڈر سے لدھیا وادی کے لوگ وہاں سے ہجرت کرنے لگے اور جب ایبٹسن نینی تال، الموڑا اور گھڑوال کے اضلاع کا ڈپٹی کمشنر ہوا تو اس نے اپنے ڈویژن کو اس خوفناک شیر سے رہائی دلانے کا تہیہ کرلیا۔
اپریل ۱۹۳۷ء کی ایک دوپہر ایبٹسن، اس کی بیوی اور میں براستہ تنک پور موضع بھوم پہنچے۔ ہم سر سے پاؤں تک گرد میں اٹے ہوئے تھے۔ دریائے ساروا کے کنارے کچھ دیر آرام کرنے کے اور چائے کی ایک پیالی پینے کے بعد ہم تھولی گھاٹ پیدل روانہ ہو پڑے جہاں ہمارے خیمے ملازموں نے پہلے ہی نصب کر رکھے تھے۔ دوسری صبح ہم ناشتہ کرنے کے بعد ہم کالا ڈھونگا پہنچے۔ تھولی گھاٹ اور کالا ڈھونگا کے درمیان آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ ہماری آمد کی اطلاع پہلے ہی سے وہاں پٹواریوں اور جنگل کے محافظوں کو پہنچا دی گئی تھی۔ ان لوگوں کو ہم نے اس لئے جمع ہونے کو کہا تھا کہ وہ ہمیں آدم خور کے متعلق تازہ ترین اطلاعات بہم پہنچا سکیں۔ جب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے تو چار آدمی ہمارے منتظر تھے اور آدم خور کے متعلق ان کی اطلاع حوصلہ افزا تھی۔ گزشتہ چھ سات دنوں میں وہاں کوئی انسان ہلاک نہیں ہوا تھا اور لوگوں کو یقین تھا کہ شیر موضع ٹھک کے گردو نواح میں موجود ہے۔ جہاں اس نے چند روز پہلے ایک بچھڑا ہلاک کیا تھا۔ کالا ڈھونگا ایک پہاڑی وادی میں واقع ہے اور اس کا رقبہ کوئی چار میل کے قریب ہے۔ اس کے تین طرف دریائے ساروا اور چھوتی طرف ایک پہاڑی ہے جو کوئی پانچ ہزار فٹ اونچی ہے۔ ریسٹ ہاؤس دریائے ساروا کے کنارے واقع ہے اور اس کے سامنے والے مناظر دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔
رات کالا ڈھونگا کے ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد صبح کے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم چوکا کی طرف پیدل چل پڑے جو وہاں سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔ سورج کی شعاعوں میں خوشگوار قسم کی حدت تھی۔ شمال سے جنوب کی طرف ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
آدم خور کے خلاف اپنی تحریک میں مدد اور مزید انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لئے ہم نے چھ نوجوان بھینسے تنک پور سے پہلے ہی چوکا روانہ کر دئیے تھے۔ یہ بھینسے ہم نے شیر کو ترغیب دینے کے لئے استعمال کرنے تھے۔ چوکا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ ان بھینسوں کو جنگل میں مختلف جگہوں پر گزشتہ تین راتوں سے باندھا ہوا ہے اور اگرچہ ایک شیر کے پنجوں کے نشان دو تین بھینسوں کے قریب دیکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوا۔ اگلے چار دنوں کے دوران ہم صبح کے وقت ان بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ دن میں شیر کو دیکھنے کی کوشش کرتے اور شام کو ایک دفعہ پھر بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ پانچویں صبح کو ٹھک کے قریب جنگل کے کنارے بندھے بھینسے کو شیر اٹھا کر لے گیا۔ اپنے شکار کو گھنے جنگل میں لے جانے کے بجائے جیسا کہ ہمیں توقع تھی شیر اسے ایک کھلے راستے سے پہاڑی پر لے گیا تھا۔ ایسا اس نے ایک مچان سے بچنے کی خاطر کیا تھا۔ اس مچان سے اس پر دو مرتبہ پہلے گولی چلائی جا چکی تھی اور شاید وہ زخمی بھی ہوا تھا۔ بھینسے کو تھوڑی دور لے جانے کے بعد اس کے سینگ دو تنگ چٹانوں کے درمیان پھنس گئے تھے اور شیر اسے وہیں چھوڑ گیا تھا۔ شیر کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑا نر شیر ہے۔
مردہ بھینسے سے بیس فٹ کے فاصلے پر جامن کا ایک درخت تھا۔ بھینسے کو چٹانوں کے درمیان سے کھینچنے کے بعد ہم نے ایک آدمی کو جامن کے درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ اس کی ایسی چند شاخیں توڑ دے جو بھینسے کو پوری طرح دیکھنے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ پہاڑی پر وہ اکیلا ہی درخت تھا اور وہیں بیٹھ کر شیر پر گولی چلائی جاسکتی تھی۔ درخت پر سے گردوپیش کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ شخص درخت کی شاخیں توڑ رہا تھا تو میرا خیال ہے کہ شیر نے اسے دیکھ لیا تھا۔
اس وقت صبح کے گیارہ بجے تھے۔ اپنے آدمیوں کو گاؤں کھانا کھانے کے لئے بھیج کر میں اور ایبٹسن ایک سایہ دار جھاڑی کے نیچے بیٹھ کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ اڑھائی بجے کے قریب ہم ہلکا پھلکا کھانا کھا رہے تھے کہ چند جنگلی پرندوں کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ ایبٹسن اور اس کا ملازم شیر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے جنگل میں چلے گئے اور میں جامن کے درخت پر چڑھ گیا۔ جب میں درخت پر ٹھیک طرح بیٹھ سے گیا تو ایبٹسن اور اس کا ملازم جنگل سے باہر نکل آئے اور چوکا کیمپ واپس چلے گئے۔ اپنے پیچھے وہ دو آدمی ٹھک میں چھوڑ گئے۔
ایبٹسن کے جانے کے تھوڑی دیر بعد پھر جنگل میں سے پرندوں کی تیز آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر پھر حرکت کررہا تھا۔ لیکن اس بات کی بہت کم امید تھی کہ وہ شام سے پہلے کھلے میدان میں سے گزر کر اپنے شکار کی طرف آئے گا۔ پرندے تقریباً پندرہ منٹ تک چلاتے رہے اور پھر ایک دم خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد شام تک کوئی آواز سنائی نہ دی اور جنگل پر خاموشی طاری رہی۔
دریائے ساروا کے کنارے نیپال کی پہاڑیوں پر شام کی شفق آہستہ آہستہ اندھیرے میں تبدیل ہونے لگی۔ اتنے میں ایک ہرن کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ شیر اس سمت سے واپس آرہا تھا جدھر سے وہ اپنا شکار چھوڑ کر گیا تھا۔ میرے سامنے درخت کی ایک شاخ تھی جس پر میں نے بندوق کی نال ٹکا رکھی تھی اور شیر کے آنے پر فقط بندوق کے پچھلے حصے کو ذرا اوپر اٹھا کر لبلبی دبانے کی ضرورت تھی۔ وقت آہستہ آہستہ رینگنے لگا پھر دو سو گز کے فاصلے پر پہاڑی کی سمت ککر چیخ اٹھا۔ شیر پر گولی چلانے کے سلسلے میں میری امید نے دم توڑ دیا۔ اب یہ صاف ظاہر تھا کہ شیر نے میرے آدمی کو درخت کی شاخیں توڑتے دیکھ لیا تھا اور پھر شام کے قریب ممکن تھا کہ اس نے مجھے بھی درخت پر بیٹھے دیکھ لیا ہو۔ بہرحال وہ شکار سے پرے پرے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے سے سانبھر اور ککروں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں لیکن ہر آواز پہلی آواز سے قدرے دور سے آتی تھی۔ نصب شب کے قریب یہ آوازیں بھی بند ہوگئیں اور جنگل پر مکمل خاموشی طاری ہوگئی۔
ابھی دن نکلا ہی تھا کہ میں درخت سے اترا، اپنی سکڑی ہوئی ٹانگیں سیدھی کیں اور ایک قریبی جھاڑی میں چھپائی ہوئی تھرماس سے چائے پینے لگا۔ جب ٹانگوں میں ذرا چستی آئی اور میں قدرے تازہ دم ہوگیا تو گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں آکر پہلے میں نے غسل کیا اور ناشتہ کر کے لیٹ گیا۔ رات کے اس تجربے سے میں کچھ دل برداشتہ ہوگیا تھا۔ اتنے میں گاؤں کے چند معتبر لوگ بھی وہاں آ پہنچے۔ میری دل برداشتگی کے اظہار پر انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ایک دو روز مزید وہاں ٹھہروں۔ انہیں یقین تھا کہ میں شیر کو ہلاک کرلوں گا۔
ایک بجے کے قریب میں پھر ٹھک کی پہاڑیاں چڑھ رہا تھا۔ راستے میں مجھے بتایا گیا کہ ایک سانبھر کی آواز سنی گئی ہے۔ کیمپ سے میں اس ارادے سے چلا تھا کہ اب کے ایک زندہ بھینس کے قریب شیر کا انتظار کروں گا۔ جس طرف سے سانبھر کی آواز سنائی دی تھی وہاں راستے میں ایک درخت تھا۔ ہم نے رسے کی مدد سے اس پر مچان تیار کی اور درخت کے نیچے بھینس باندھ دی۔ تین بجے کے قریب میں اس درخت پر چڑھ گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک ککر کی آواز آئی اور تھوڑی دیر بعد کوئی ہزار گز سے شیر کی گرج سنائی دی۔ بھینس کے آگے بہت سارا چارہ ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے گلے کی گھنٹی رات بھر بجتی رہی مگر وہ شیر کو اپنی سمت متوجہ نہ کرسکی۔
صبح کے وقت جب میں چوکا واپس آیا تو معلوم ہوا ایبٹسن صبح ہونے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ گزشتہ شام اسے اطلاع ملی تھی کہ لدھیا وادی سے آٹھ میل دور ایک شیر نے ایک بیل ہلاک کردیا تھا۔ وہ ساری رات اس بیل کے قریب شیر کے انتظار میں بیٹھا رہا مگر بے سود۔ دوسری شام وہ کیمپ واپس چلا آیا۔ صبح کو جب ہم ناشتہ کر رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر اطلاع دی کہ جو بھینس دریا کے بہاؤ کی سمت جنگل میں بندھی تھی۔ جہاں گزشتہ روز ککر اور سانبھر کی آوازیں سنائی دی تھیں، وہاں سے غائب ہے۔ اس گفتگو کے دوران میں ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میکڈونلڈ بھی وہاں پہنچ گیا جو اسی روز کالا ڈھونگا سے اپنا کیمپ چوکا میں منتقل کررہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دریا کے بہاؤ کی سمت (غالباً جہاں بھینس بندھی ہوئی تھی) شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے ہیں۔