چهیڑتی ہیں رات بهر مجھ کو مری تنہائیاں - برائے اصلاح و تنقید

چهیڑتی ہیں رات بهر مجھ کو مری تنہائیاں
بهر گئی ہے چار سو یہ خامشی تنہائیاں

بادلوں سے کھیل کر ہے چاند مسکاتا مگر
اسکے رخ پہ بهی ہیں کیوں بکهری ہوئی تنہائیاں

دیکھتی ہوں میں مگر اپنا اسے پاتی نہیں
دے رہی ہے مجھ کو میری بے بسی تنہائیاں

میں نے تو تها دفعتا وحشت میں تهاما یہ قلم
اور کاغذ پہ غزل ہیں لکھ گئی تنہائیاں

یوں تو میں نے دل میں کر ڈالا تها ان کو دفن پر
آنسوؤں کی شکل میں ظاہر ہوئی تنہائیاں

رات دن کا یہ تڑپنا ہو گیا معمول سا
ہوں تماشا میں ہیں مجھ کو دیکھتی تنہائیاں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مزمل شیخ بسمل سے مجھے چھوٹا ہی سمجھا جائے، ہرچند کہ یہاں اصلاح کا مشورہ دینے کی غلطی کر رہا ہوں۔۔۔
چهیڑتی ہیں رات بهر مجھ کو مری تنہائیاں
بهر گئی ہے چار سو یہ خامشی تنہائیاں
۔۔۔ بھر گئی ہیں ہونا چاہئے تھا، بھرنے والا فاعل میرے خیال میں تنہائیاں ہے، اس لیے۔
بادلوں سے کھیل کر ہے چاند مسکاتا مگر
اسکے رخ پہ بهی ہیں کیوں بکهری ہوئی تنہائیاں
÷÷تنہائی ایک کیفیت ہے، رخ پر اس کیفیت کی وجہ سے پریشانی بکھرنی چاہئے تھی شاید۔ یہ سوال ہے۔
دیکھتی ہوں میں مگر اپنا اسے پاتی نہیں
دے رہی ہے مجھ کو میری بے بسی تنہائیاں
÷÷اسے کا استعمال جس طرح کیا گیا ہے، اس سےمجھے لگتا ہے، اس کا تعلق دوسرے مصرعے میں بے بسی سے ہے، یعنی شاعرہ بے بسی کو دیکھتی ہے اور اسے اپنا نہیں پاتی۔۔۔ یہی بات ہے؟
میں نے تو تها دفعتا وحشت میں تهاما یہ قلم
اور کاغذ پہ غزل ہیں لکھ گئی تنہائیاں
÷میں نے تھاما دفعتا وحشت میں جب اپنا قلم ۔۔۔۔ میرے کاغذ پر غزل لکھ کر گئیں تنہائیاں ۔۔۔ شاید بہتر لگے کیونکہ ’’تو تھا‘‘ سے میرے خیال میں روانی متاثر ہورہی تھی، بہرحال ، یہاں میرا مشورہ تقطیع کے بعد ہی قبول کیاجاسکتا ہے یا مسترد کیونکہ اس بحر پر میری دسترس کچھ خاص نہیں۔۔۔پھرآپ کا قافیہ کہاں جائے گا؟
یوں تو میں نے دل میں کر ڈالا تها ان کو دفن پر
آنسوؤں کی شکل میں ظاہر ہوئی تنہائیاں
÷÷دوسرے مصرعے میں ’’ظاہر ہوئیں‘‘ ہونا چاہئے تھا۔۔۔لیکن قافیہ متاثر ہوتا ہے، کیا اس کی رخصت ہے؟ یہ سوال مزمل شیخ بسمل صاحب سے ہے کہ رخصت ہے یا نہیں۔۔۔ پہلے مصرعے میں ’پر‘ کے استعمال پر جو لیکن یامگر کے معنوں میں آتا ہے، اعتراض نہیں، لیکن اختلاف ہے ۔
رات دن کا یہ تڑپنا ہو گیا معمول سا
ہوں تماشا میں ہیں مجھ کو دیکھتی تنہائیاں
÷÷درست
 
پہلے شعر میں خاموشی تنہائیاں بهر رہی ہے

I agree with your point in the second shair if you have a suggestion please share

In the third shair it's"usay" not"isay"


In the last one i could say "hein beh rahi"
 
مزمل شیخ بسمل سے مجھے چھوٹا ہی سمجھا جائے، ہرچند کہ یہاں اصلاح کا مشورہ دینے کی غلطی کر رہا ہوں۔۔۔

نہیں۔ ہوئیں بجائے ہوئی غلط ہے۔
زوائد میں ”ی“ کے بعد وصل آجاتا ہے جس کا خلط (بقیہ قوافی جن میں زوائد کا شمول نہ ہوں) جائز نہیں ہوتا۔ صرف روی یعنی فقط ”ی“ پر اکتفا کیا جائے گا۔ یہ معاملہ عروض کے وزن سے نہیں بلکہ قافیہ اور لفظ کے ماخذ میں دیکھا جاتا۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نہیں۔ ہوئیں بجائے ہوئی غلط ہے۔
زوائد میں ”ی“ کے بعد وصل آجاتا ہے جس کا خلط (بقیہ قوافی جن میں زوائد کا شمول نہ ہوں) جائز نہیں ہوتا۔ صرف روی یعنی فقط ”ی“ پر اکتفا کیا جائے گا۔ یہ معاملہ عروض کے وزن سے نہیں بلکہ قافیہ اور لفظ کے ماخذ میں دیکھا جاتا۔ :)
آپ کس شعر کی بات کر رہے ہیں؟کیونکہ جو آپ نے کوٹ کیا ہے، وہ غیر متعلقہ ہے۔۔۔
پہلے شعر میں خاموشی تنہائیاں بهر رہی ہے

I agree with your point in the second shair if you have a suggestion please share

In the third shair it's"usay" not"isay"


In the last one i could say "hein beh rahi"

بادلوں سے کھیل کر ہے چاند مسکاتا مگر
اسکے رخ پہ بهی ہیں کیوں بکهری ہوئی تنہائیاں

بادلوں سے کھیل کر ہے چاند مسکاتا مگر ۔۔۔
÷÷مجھے تو اس پر بھی اعتراض ہے، چاند بے چارہ ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہوتا ہے، یہ بادل ہی ہوتے ہیں جو بار بار کبھی نقاب بن کر سامنے آجاتے ہیں اور کبھی دور بھاگتے ہیں۔(یہ رائے ہے، فتویٰ نہیں، پھر سائنس کچھ اور کہتی ہے اس کے بارے میں، چاہے ہم شاعر لوگ کچھ بھی لکھا کریں)
لیکن اگر اس مصرعے کو جوں کا توں رہنے دیاجائے تو:
بادلوں سے کھیل کر ہے چاند مسکاتا مگر
کھیلتی ہیں اس کے رخ پر بھی کبھی تنہائیاں ۔۔۔ (لیکن یہاں بھی اور کبھی یکجا ہو گئے ہیں، شاید یہ غلطی ہے، اس لیے)
ایک کوشش اور سہی:
بادلوں سے کھیل کر ہے چاند مسکاتا مگر
پھیلتی ہیں اس کے چہرے پر بسی تنہائیاں۔۔۔
 
÷÷دوسرے مصرعے میں ’’ظاہر ہوئیں‘‘ ہونا چاہئے تھا۔۔۔ لیکن قافیہ متاثر ہوتا ہے، کیا اس کی رخصت ہے؟ یہ سوال
مزمل شیخ بسمل صاحب سے ہے کہ رخصت ہے یا نہیں۔۔

نہیں۔ ہوئیں بجائے ہوئی غلط ہے۔
زوائد میں ”ی“ کے بعد وصل آجاتا ہے جس کا خلط (بقیہ قوافی جن میں زوائد کا شمول نہ ہوں) جائز نہیں ہوتا۔ صرف روی یعنی فقط ”ی“ پر اکتفا کیا جائے گا۔ یہ معاملہ عروض کے وزن سے نہیں بلکہ قافیہ اور لفظ کے ماخذ میں دیکھا جاتا۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مزمل صاحب ماشاء اللہ آپ شاعری اور خصوصا علم عروض میں تو ہم سے آگے ہیں۔ ہمیں دیکھئے بی اے کیا تھا 2005ء میں، اس کے بعد نہیں پڑھا۔ لیکن جو پڑھا تھا، اس میں شاعری کہیں نہیں تھی، نہ اردو کہیں تھی، سو جو میٹرک کا سرٹیفیکیٹ ہے نا، وہ صرف کاغذ کا ٹکڑا ہی سمجھئے۔ آگے کی تعلیم تو ہمیں آپ ہی سے حاصل کرنی ہے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
شاہد کے اعتراضات درست ہیں، لیکن ترمیمات درست نہیں۔ ہوئیں تو قافیے میں نہیں آ سکتا۔
ویسے اس پوری غزل میں ایسی گرامر کا استعمال ہے جو محض ہندی والے مکمل صحیح سمجھتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔ ہیں جا رہی‘، ہے کہہ رہی وغیرہ۔ یہاں سارہ کی مشکل یہ ہے کہ زمین ہی ایسی چنی ہے انہوں نے۔
اصلاح کی بجائے بہتر یہی سمجھتا ہوں کہ سارہ کود ہی سوچ سمجھ کر ترمیم کریں اس کے بعد جو اسقام ہوں گے، وہ میں دیکھ لوں گا۔
 
Top