چند سوالات

قیصرانی

لائبریرین
اس دھاگے کو پڑھنے سے پہلے جذبات کو ایک طرف رکھ کر تشریف لائیں۔ اسی طرح میری پوسٹس ایک سے زائد ہوں گی۔ براہ کرم ان کو مکمل پڑھ کر ہی بحث کا آغاز کیجئے گا۔ ورنہ ہم آپس میں ہی دست و گریباں ہوں گے اور اصل باتیں رہ جائیں گی۔ بحث کے لیے میں بعد میں دھاگہ کھولوں گا۔ ابھی یہ صرف ریڈ اونلی ہے۔

پیارے دوستو، میں بہت دنوں سے مختلف سوالات کو بار بار سوچ رہا ہوں۔ کہ ہم مسلمان کیا ہیں۔ ہماری اخلاقی اقدار اور ہماری مذہبی ویلیوز کیا ہیں؟ مغرب یعنی عیسائی دنیا اور یہودیت کی ویلیوز کیا ہیں؟ ہماری نظر میں وہ اور ان کی نظر میں ہم کیا اور کیسے ہیں؟

سب سے پہلے ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ہمیں کیا ہونا چاہئے اور ہم کیا ہیں

بطور مسلمان ہم لوگ یہودیت اور عیسائیت کوبطور ایک الہامی مذب تسلیم کرتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ منسوخ شدہ شریعتیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہودیت اور عیسائیت کے انبیا ہمارے لیے باعث احترام ہیں۔ ان کا ماننا ہمارے لیے فرض کا درجہ اور ایمان کا لازمی حصہ ہے۔

بطور مسلمان ہمیں تحمل اور اعتدال سے کام لینے کا حکم ہے۔ حالت جنگ، جس میں تقریبا تمام مذاہب کے پیروکار یہ کہتے ہیں کہ سب جائز ہے، ہمیں سب جائز کہنے سے روکا گیا ہے۔ جنگ کے شروع کرنے کے اسباب بیان کئے ہیں۔ جنگ کو جاری رکھنے کے اسباب ہیں۔ جنگ لڑنے کے اصول ہیں۔ یعنی جنگ کو بطور ایک عبادت کہا گیا ہے۔ تو ہر عبادت کے اصولوں کی طرح اس کے بھی اصول ہیں۔ یعنی کب یہ فرض ہوگی، کن حالات میں اس کو فرض قرار دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ جنگ میں ہم کوئی درخت بغیر وجہ کے نہیں کاٹ سکتے، فصل کو تباہ نہیں کرسکتے، عورتوں ،بچوں، بوڑھوں اور ان جوانوں کو قتل نہیں کر سکتے جو ہمارے خلاف تلوار نہ اٹھائیں یعنی حملہ نہ کریں۔ جو ہتھیار ڈال دے، وہ مامون ہو جائے گا

عیسائیت اور یہودیت میں جنگ کا مقصد یا فی الوقت اصول کہ لیں، وہ یہ ہے کہ ہر حال میں کامیابی ہو۔ کوئی ضابطہ یاکوئی انسانیت کو خاطر میں نہیں لانا۔جنگ عباد ت نہیں ہے ان کے لیے۔ جنگ ایک مالی یا دنیاوی فائدہ ہے

ابھی اس معاملے کو موجودہ صورتحال میں دیکھیں

بطور مسلمان ہم کیا کر رہے ہیں

اگر اسامہ بن لادن ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرتا ہے، ہزاروں بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمان بشمول میرے اپنے، بہت خوش ہوتے ہیں۔ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ نوافل شکرانے کے پڑھے جاتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے سوچا کہ یہ خوشی کس بات کی ہے؟ کیا بے گناہوں کا قتل یا قتل عام ایک ثواب کا کام ہے؟ کیا طیارے میں سوار سارے افراد واجب القتل تھے؟ کیا ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں موجود تمام افراد بشمول بچے، بڑے اور خواتین سب واجب القتل تھے؟ کیا وہ پولیس والے اور وہ فائر فائٹرز جو آگ بجھانے ان ٹاورز میں گئے، وہ بھی سارے کے سارے جہنمی اور واجب القتل تھے؟ کیا یہ کہ دینا کہ گیہوں‌کے ساتھ گھن پس جاتا ہے، ٹھیک ہوگا؟ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟

دوسری طرف ان ورلڈ ٹریڈ سینٹر وغیرہ کے بے گناہوں کے قاتل یا قاتلون کو قرار واقعی سزا دینے کا امریکی یا عالمی مطالبہ ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ان قاتلوں کو سزا دینا تو درکنار ان بے گناہوں کے قاتل ہمارے ہیرو ہیں۔ یعنی شہری آبادی کے قاتل ہمارے ہیرو۔ یعنی غیر اسلامی حرکت کرنے والے ہمارے مسلمان ہیرو ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اگر اسرائیل کو ہم شہری آبادی کے قتل سے منع کرتے ہیں تو کیا ہمیں اپنے آپ سے گھن نہیں آتی؟ کیا ہم اپنے گریبان میں جھانک کر یہ نہیں دیکھ سکتے کہ جیسے ہم نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے قاتلوں کو سزا دینے کے عالمی مطالبے کو اپنی ٹھوکر پر رکھا تھا، ویسے ہی اگر ہمارا مطالبہ کہ اسرائیل کو شہری آبادی پر حملے نہیں کرنے چاہیں، کو اسرائیل کیا اہمیت دے گا؟ میں یہاں اسرائیل کے اقدامات کی حمایت یا ان کو اچھا نہیں کہ رہا۔ صرف یہ کہ رہا ہوں کہ جیسے گھناؤنی حرکت اسرائیل کر رہا ہے، ویسے یا اس سے ملتی جلتی حرکات تو ہم بھی کر چکے ہیں، بغیر شرمندہ ہوئے۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟

اسی طرح ہمارا ایک فرد، سی آئی کا ایجنٹ ہوتا ہے تو ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ وہ دیگر مسلمانوں کی جاسوسی اور انہیں ایذا دینے اور قتل کرنے پر مامور ہوتا ہے، ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں۔ اگر وہ ۳ دیگر سی آئی اے کے ایجنٹس کو قتل کرتا ہے (ذاتی وجوہات کی بنا پر نہ کہ اسلامی وجوہات) تو وہ ہمارے لیے ایک قابل احترام مسلمان ہیرو بن جاتا ہے۔ اس کے خلاف قتل کی سزا ہمارے حلق سے نہیں اتر پاتی۔ لیکن ہزروں کردوں، شعیہ اور ایرانیوں کے قاتل صدام حسین کو ہم ابھی بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ہے کہ نہیں؟ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟

ہمارے نبی پاک ص جو کہ رحمت اللعالمین ہیں، جو اپنی ذات کے خلاف کہی گئی ہر بات اور کی گئی حرکت کو یہ کہ کر معاف کر دیتے ہیں کہ یہ نا سمجھ ہیں اور ان کی اصلاح‌کی کوشش اور دعا فرماتے ہیں۔ اگر اسی نبی پاک ص کے پیرو کار ہم کوئی ایسی حرکت دیکھتے ہیں، تو فتاویٰ جاری ہو جاتے ہیں اور قتل کے دعوے جاری ہوتے ہیں۔ انعامات رکھے جاتے ہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟

اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو جب وہ حالت نماز میں ہوتے ہیں، کوئی خود کش بمبار حملہ کر کے قتل کرتا ہے تو کیا ہم نے اس کے بنیادی اسباب کو دیکھا؟ کیا ہم نے ان علما کو کچھ کہا جو خود کش حملے کو اتنی اچھی اور پاکیزہ موت قراردیتے ہیں؟ لیکن وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ یہ حملہ یہودیوں پر ہونا چاہیئے، دیگر مسلمانوں پر نہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟

اللہ پاک کا حکم کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقے میں نہ پڑو کا یہ ترجمہ کیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو اللہ پاک سے جوڑ لو اور باقی سب فرقے قتل کر دو۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ جب ایک ہی فرقہ ہوگا، وہی جنتی ہوگا، وہی سب کچھ۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟

جاری ہے۔ براہ کرم منتظر رہئیے گا اور سوچتے رہیئے گا۔ ابھی اس پر کوئی بھی تبصرہ مت کیجئے گا

قیصرانی
 

مغزل

محفلین
قیصرانی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ اجازت دیجئے تو جواباً عرض کروں ؟؟
آج آپ کے مراسلے کو لگ بھگ دو سال ہوچکے ہیں ۔۔ آپ رائے
پابندی کی قدغن لگا کر۔۔۔ اپنے اندر کے خوف کو تسلی دی ہے
کہ کوئی بھاری وضاحت نہ گلے آن پڑے۔۔۔

اب اجازت دے بھی دیجئے۔۔۔؟؟ :grin:
یہ ہمارا حق ہے کہ ہم موافقت یا مخالفت میں جیسے چاہیں اظہار کریں۔
والسلام
 

جیہ

لائبریرین
یہ ان دنوں کی پوسٹ ہے جب ہمارے اعلی منتظم غالب کے اس شعر کے مصداق تھے

چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں


اب ماشاّ اللہ وہ خود پہنچے ہوئے ہستی ہیں:a2:
 

خرم

محفلین
یہ الگ بات کہ ان کے سوالات آج بھی اتنے ہی مؤثر ہیں جتنے کہ آج سے دو برس قبل تھے اور شائد آج سے بیس برس بعد بھی اتنے ہی تازہ ہوں گے۔
 

مغزل

محفلین
خرم صاحب یہاں بھی خوش آمدید ۔۔۔ بلکہ سواگت ہے ۔۔۔ قیصرانی صاحب آئیں تو دیکھیئےگا۔۔
کیا گت بنائیں گے جوابات ۔۔ میں۔
 

طالوت

محفلین
رائے پر پابندی ابھی بھی برقرار ہے ؟؟ یہ ہمارے وہ مسائل ہیں جن کو ہم صرف جزباتی نظر سے دیکھتے ہیں اور "اس نے کیا ہے تو میں کیوں نہ کروں" کے مصداق اپنی اپنی ہانکتے ہیں ورنہ یہ تو سیدھی اور صاف باتیں ہیں جن سے انکار اتنا آسان بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ وسلام
 
Top