پیاسا صحرا
محفلین
تین اشعار
تمام شہر کی گلیاں بھری ہیں رنگوں سے
ہوا گزر کے آئی ہے جو ان دریچوں سے
کبھی بھی شاخ پہ پھر برگ آرزو نہ کھلے
ہوا نے بات یہ کہہ دی اداس شاخوں سے
بچھڑ بھی جائیں تو دل کو کوئی ملال نہ ہو
بس اتنا رابطہ رکھو تمام لوگوں سے
دیکھتا ہے مانگنے والے انداز طلب
بے سلیقہ کم دلوں کو مرا رب دیتا نہیں
کچھ بچا رکھتا ہے عالی ظرف لوگوں کیلیے
غم متاع بے بہا ہے سب کی سب دیتا نہیں
جب بھی تجھ سے مل کر آؤں روپ انوکھا لگتا ہے
یوں تو تیرا سارا چہرہ دیکھا بھالا لگتا ہے
میری سوچ اور میری آنکھیں دھوکہ دیتی رہتی ہیں
تیرے شہر کا ہر اک منظر تیرے جیسا لگتا ہے
بات کچھ سوجھی نہیں ہے تجھ سے کہنے کیلئے
یہ تحیر بھی بہت ہے زندہ رہنے کیلئے
آؤ بے سوچے زمانے بھر کی ہم باتیں کریں
عمر تو ساری پڑی ہے کچھ نہ کہنے کیلیے
ن م راشد
تمام شہر کی گلیاں بھری ہیں رنگوں سے
ہوا گزر کے آئی ہے جو ان دریچوں سے
کبھی بھی شاخ پہ پھر برگ آرزو نہ کھلے
ہوا نے بات یہ کہہ دی اداس شاخوں سے
بچھڑ بھی جائیں تو دل کو کوئی ملال نہ ہو
بس اتنا رابطہ رکھو تمام لوگوں سے
دیکھتا ہے مانگنے والے انداز طلب
بے سلیقہ کم دلوں کو مرا رب دیتا نہیں
کچھ بچا رکھتا ہے عالی ظرف لوگوں کیلیے
غم متاع بے بہا ہے سب کی سب دیتا نہیں
جب بھی تجھ سے مل کر آؤں روپ انوکھا لگتا ہے
یوں تو تیرا سارا چہرہ دیکھا بھالا لگتا ہے
میری سوچ اور میری آنکھیں دھوکہ دیتی رہتی ہیں
تیرے شہر کا ہر اک منظر تیرے جیسا لگتا ہے
بات کچھ سوجھی نہیں ہے تجھ سے کہنے کیلئے
یہ تحیر بھی بہت ہے زندہ رہنے کیلئے
آؤ بے سوچے زمانے بھر کی ہم باتیں کریں
عمر تو ساری پڑی ہے کچھ نہ کہنے کیلیے
ن م راشد