نوشی گیلانی چراغ شام جلتا ہے

چراغِ شام جلتا ہے

کیا خبر کیوں ۔۔ وحشتِ عشق کے اسیر ایک اجنبی سمندر کے اجنبی جزیرے کے باسی ہوۓ اور آج تک سبز پانیوں پہ کشتیٔ رزق کھیلنے کی بے طلب مشقت میں مصروف ہیں ۔۔ کہ یہ شرطِ وضع داری بھی ہے اور وصفِ پردہ داری بھی۔

عہدِ استوار سے عرصۂ انتشار تک۔۔ جانے کتنے ہی بے نشان ساحلوں پر تجربوں اور مشاہدوں کی سیپیاں چُنتے چُنتے اپنی پوروں پر چبھن کا احساس اُبھرا۔ کتنی ہی بار خواہشوں کی ریت سے گھروندے بناۓ اور لہروں سے شکست کھایٔ۔ سفر کے گیت گاتی ہَواؤں سے رنجشیں رہیں۔ نگاہ اُٹھتی تو ہر سمت جیسے خوف کے پہرے لگے رہتےاور اَن سُنی آوازوں کی زنجیریں بجتی رہتیں۔ دُور پہاڑوں پر جلتے چراغوں کے ساتھ اُداسی جاگتی۔۔ ایک عجیب عالمِ خود فراموشی رہا ۔۔ عجیب شعورِ رایٔیگانی و جذبۂ بے دِلی۔۔ کبھی آزارِ جاں حد سے بڑھا تو روح کو ویران کر گیا اور کبھی کارِ سُخن نے وحشتوں کو آسان کر دیا۔

ہجرت کی دُھند کے حصارِ بے درو دیوار نے نیندوں اور رتجگوں، راستوں اور مسافتوں کو دُھندلا ہی رکھا۔ نہ خوابوں کی تعبیریں واضح ہو سکیں اور نہ ہتھیلیوں پر اُبھرتی لکیریں۔ بس اِک وردِ حق تھا جو شاداب رہا۔۔ صبحِ بیدار سے شبِ بے تاب تک۔

اِس کشمکشِ ترک و طلب نے آگہی کا دَر وا کیا۔۔ کہ اسمِ رَب اور اسمِ جُدایٔ ہی دو سچایٔیاں ہیں۔ انہی سے زندگی کے تمام چشمے پُھوٹتے ہیں اور یہیں پہ خُشک ہو جاتے ہیں۔ اور آگہی کا یہ بھید ایسا ہے کہ جس کا صدف ہاتھ آ جاۓ تو ۔۔ ہجر کیا، وصال کیا ۔۔ عہدِ بے مثال کیا۔۔ خدشۂ ملال کیا۔۔ دشتِ اندمال کیا۔۔ تیشۂ سوال کیا۔۔ چہرۂ کمال کیا، سب یک رنگ ہو جاتے ہیں اور وہ رنگ ہے۔۔ رنگِ انبساطِ صبر۔
جس کی بارش میں بدن مٹی ہو بھی جاۓ تو روح کو بے نیازی کا ہنر سے فیض یاب کر دیتا ہے جو شیوۂ قلندری ہے ۔ اور اسے آسمانوں سے اُتارا جاتا ہے۔۔ عشق والوں پر۔

(دیباچہ"پہلا لفظ محبت لکھا")
نوشی گیلانی
 
Top