چراغ حسن حسرت ::::: محبّت کِس قدر یاس آفریں معلوُم ہوتی ہے ::::: Chiragh Hasan Hasrat

طارق شاہ

محفلین


غزل
محبّت کِس قدر یاس آفریں معلوُم ہوتی ہے
تِرے ہونٹوں کی ہر جُنْبش نہیں معلوُم ہوتی ہے

یہ کِس کے آستاں پر مجھ کو ذوقِ سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبِیں، اپنی جبِیں معلوُم ہوتی ہے

محبّت تیرے جلوے کتنے رنگارنگ جلوے ہیں
کہِیں محسُوس ہوتی ہے، کہِیں معلوُم ہوتی ہے

جوانی مِٹ گئی، لیکن خَلِش دردِ محبّت کی !
جہاں معلوُم ہوتی تھی، وہیں معلوُم ہوتی ہے

اُمیدِ وصل نے دھوکے دِیے ہیں اِس قدر حسرت !
کہ اُس کافر کی ہاں بھی، اب نہیں معلوُم ہوتی ہے

چراغ حَسَن حسرت
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت نوازش پذیرائی انتخاب پر !
یہ غزل سیماب اکبر آبادی کی زمین میں ہے جس کا مشہور شعر ہے
کہانی میری رُودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سُنتا ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
:)
گزارش ہے کہ حوالہ کی گئی غزل تک دستیابی کو ممکن بنائیے شاہ صاحب۔۔۔۔
 
Top