چادر اوڑھے موم کی پتھر گھوم رہا ہے

حاتم جاوید

محفلین
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چادر اوڑھے موم کی پتھر گھوم رہا ہے
مرحم لے کر ہاتھ میں خنجر گھوم رہا ہے

بچے اب دہلیز پہ کیسے دھوم مچائیں
بستی بستی خوف کا لشکر گھوم رہا ہے

گھر کے بوڑھے لوگ ہوئے فٹ پاتھ کی زینت
خود غرضی کا قہر تو گھر گھر گھوم رہا ہے

دریا اپنی جیب میں لے کر گھومنے والا
لب پر صحرا پیاس کا لے کر گھوم رہا ہے

سچائی کی لاش کو منصف نوچ رہے تھے
آنکھوں میں جاوید وہ منظر گھوم رہا ہے
۔۔ حاتم جاوید
 

شکیب

محفلین
گھر کے بوڑھے لوگ ہوئے فٹ پاتھ کی زینت
خود غرضی کا قہر تو گھر گھر گھوم رہا ہے
گھر گھر گھوم رہا ہے۔۔۔ واہ!
سچائی کی لاش کو منصف نوچ رہے تھے
آنکھوں میں جاوید وہ منظر گھوم رہا ہے
بہت خوب۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ زمین مشکل ہے اور نبھانی بھی مشکل تھی۔
ان دونوں اشعار کو پھر دیکھیں:

نور کے رنگ کے تدارک میں
خرد منشور تک چلے آئی
۔۔دوسرا مصرع وزن سے خارج ہے۔ شاید خِ رَ د کو بر وزن درد تقطہع کیا گیا ہے جو غلط ہے۔

دوریاں تھیں سو وہ مٹانے کو
خود سے بھی دور تک چلے آئی
یہ واضح نہیں ہوا
امید ہے کہ ردیف ’چلی آئی‘ ہی ہے، اور ’چلے‘ ٹائپو ہے
 
Top