چائے پیتے پیتے چند نکات سے مدد کیجیے۔

فرقان احمد

محفلین
1۔ کم مراعات یافتہ طبقے کو تعلیمی وسائل کی بلاامتیاز فراہمی۔
2۔ اسکالرشپس کا باقاعدگی کے ساتھ اجراء
3۔ پڑھائی کے اوقات سے ہٹ کر تعلیمی اداروں میں تربیتی کورسز کا اجراء

ویسے سوال، مزید وضاحت کا متقاضی ہے۔ تابش بھائی درست فرما رہے ہیں۔
 
1۔ کم مراعات یافتہ طبقے کو تعلیمی وسائل کی بلاامتیاز فراہمی۔
2۔ اسکالرشپس کا باقاعدگی کے ساتھ اجراء
3۔ پڑھائی کے اوقات سے ہٹ کر تعلیمی اداروں میں تربیتی کورسز کا اجراء

ویسے سوال، مزید وضاحت کا متقاضی ہے۔ تابش بھائی درست فرما رہے ہیں۔
میں بھی کچھ اسی قسم کی باتیں لکھ رہا تھا، پھر مٹا کر وضاحت اس لیے چاہی کہ کہیں گفتگو کا رخ غلط سمت میں نہ چلا جائے، جو جاسمن بہن کے ذہن میں موجود سوال سے مختلف ہو۔ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
معاشرے کے سدھار کے لئےتعلیمی اداروں کی سماجی بہبود میں شمولیت
سڑک, محلہ, گلی کی صفائی مہم, شجر کاری میں , اور اس سے زیادہ آگاہی مہم۔ اگر بچوں کو صرف اپنے اپنے گھروں میں ہی آگاہی پھیلانے کی تربیت دے دی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو سوشل سروس کا تصور دینے کے لیے ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے مواقع فراہم کرنا۔
 

La Alma

لائبریرین
میرے خیال میں وہ یہ پوچھنا چاہ رہی ہیں کہ تعلیمی ادارے معاشرے کی بہتری کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں .
 
میں بھی کچھ اسی قسم کی باتیں لکھ رہا تھا، پھر مٹا کر وضاحت اس لیے چاہی کہ کہیں گفتگو کا رخ غلط سمت میں نہ چلا جائے، جو جاسمن بہن کے ذہن میں موجود سوال سے مختلف ہو۔ :)
معاشرے اور تعلیمی اداروں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے نکات پر بہنا بات کرنا چاہ رہی ہیں،،،،،شاید۔:)
 
معاشرے اور تعلیمی اداروں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے نکات پر بہنا بات کرنا چاہ رہی ہیں،،،،،شاید۔:)
معاشرے میں فلاح و بہبود کے لیے تعلیمی اداروں کا کردار اور معاشرے میں تعلیمی اداروں کے فلاح و بہبود کے لیے کوشش دو مختلف موضوعات ہیں۔ :)
 
معاشرے میں فلاح و بہبود کے لیے تعلیمی اداروں کا کردار اور معاشرے میں تعلیمی اداروں کے فلاح و بہبود کے لیے کوشش دو مختلف موضوعات ہیں۔ :)
لیکن یہاں صرف فلاح و بہبود پر نکات طلب ہیں۔
معاشرے کے سدھار کے لئےتعلیمی اداروں کی سماجی بہبود میں شمولیت
 
عمومی طور پر تعلیمی اداروں کے تحت صفائی مہم یا شجر کاری مہم کا تو انعقاد ہوتا رہتا ہے۔
میری رائے میں تعلیمی اداروں کا سب سے اہم کردار معاشرے میں تعلیم کے عام کرنے کے حوالے سے ہی ہونا چاہیے۔
پھر مختلف علاقوں کے اعتبار سے مختلف کام کیے جا سکتے ہیں۔
مثلاً بڑے شہروں میں اور طرح کے مسائل ہوں گے، چھوٹے شہروں میں اور طرح کے۔ بڑے شہروں سے منسلک گاؤں دیہات کے مختلف مسائل ہوں گے، دور دراز کے گاؤں دیہات کے مختلف۔
پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ہر طرح کی آبادیاں موجود ہیں۔ جن میں الٹرا امیر سے لے کر الٹرا غریب علاقے تک شامل ہیں۔ معاشی اعتبار سے اچھے علاقوں کے اساتذہ کو چاہیے کہ معاشی مقصد سے بالاتر ہو کر ہفتہ میں ایک دن، دو دن غریب آبادی والے علاقہ کے بچوں کو مفت تعلیم دیں۔ اور اس سلسلے میں بڑی کلاسز کے طلبا و طالبات کی مدد بھی حاصل کی جا سکتی ہے، کہ وہ چھٹیوں میں ان علاقوں میں غریب طلبا کو پڑھائیں۔ ان بچوں کو وہ ایکٹوٹیز دیں جن کی خواہش ذہنوں میں لیے وہ معاشی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔

یہ ایک آئیڈیا مثال کے طور پر ہے، جس کی عملی صورت بھی دیکھ چکا ہوں۔
 
آخری تدوین:
ہمارے ہاں بد قسمتی سے زیادہ رواج یہ بن گیا ہے، کہ اساتذہ صبح کی باقاعدہ ملازمت کے بعد شام کو مہنگی ٹیوشنز پڑھاتے ہیں۔ اور تعلیم صرف ایک ذریعہ معاش بن کر رہ گیا ہے۔
کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ٹیوشن نہ پڑھائیں، ضرور پڑھائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں میں سے کچھ صرف اللہ کی راہ میں استعمال کرنے کا بھی وقت نکالیں۔ اللہ کی راہ میں صرف مال سے صدقہ نہ نکالیں، بلکہ اس صلاحیت کا بھی صدقہ نکالیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے۔
 
تعلیمی اداروں میں ہی شام کو غریب طبقہ کے لیے مفت کلاسز کا اجراء ہو سکتا ہے۔ تعلیمِ بالغاں کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ ووکیشنل ٹریننگ کلاسز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
سکول کے طلبا و طالبات کو سیشن کے دوران یا چھٹیوں میں مختلف سوشل ایکٹویٹیز میں شریک کروایا جا سکتا ہے، جیسا پہلے فرحت بہن نے تذکرہ کیا ہے۔
ہسپتالوں میں جا کر چلڈرن سیکشن کا وزٹ اور اس کی رینوویشن، بچوں کے لیے تحائف وغیرہ۔
گورنمنٹ یا دیگر این جی اوز کے بنائے ہوئے آرفن کیئر سنٹر کے وزٹ۔
صرف صفائی مہم نہیں بلکہ صفائی کے حوالے سے آگہی مہم۔ مثلاً کسی سکول کے طلبا کسی علاقہ میں گھر گھر جائیں اور لوگوں میں صفائی کی اہمیت اجاگر کریں۔ اور اہلِ علاقہ کو ہر گلی میں باضابطہ کوڑے دان کی تنصیب اور دیگر اقدامات پر راضی کریں۔
 
موجودہ دور میں پرائیوٹ تعلیمی ادارے نفع بخش صنعت کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔پرائیوٹ اسکول اور پرائیوٹ کالج میں اپنے بچے کوتعلیم دلانا ہائی اسٹیٹس کا حصہ بن گیا ہے۔سرکاری اسکولوں کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔اچھا معیار تعلیم صرف صاحب ثروت کی دسترس تک محدود ہے۔اچھی اور معیاری تعلیم کی کمی کی وجہ سے معاشرے کے مڈل کلاس اور مڈل کلاس سے نیچے افراد میں حساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے اور اس بڑھتے احساس محرومی کے نقصانات بھی ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔معاشرے کے سدھار کے لیے اچھا تعلیمی معیار سے آشنائی ہرطلب علم کےلیے ضروری ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرے خیال میں وہ یہ پوچھنا چاہ رہی ہیں کہ تعلیمی ادارے معاشرے کی بہتری کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں .
بالکل۔ عین ممکن ہے کہ سوال کا مقصد کچھ اور ہو۔ جاسمن جلدی سے سوال کی وضاحت کر دیں۔
ویسے میرا ماننا ہے کہ اگر سماجی بہبود اور اس ضمن میں شہریوں کی ذمہ داری کے تصور کو ابتدائی عمر سے بچوں کی شخصیت کا حصہ بنا دیا جائے تو معاشرے کے بہت سے بگاڑ سنور سکتے ہیں۔ اور اگر آپ تعلیمی اداروں کے سماجی بہبود میں کردار کے لانگ ٹرم اثرات کی بات کرتے ہیں تو سب سے بہتر آپشن یہی ہے کہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بچوں کے اندر یہ شعور واضح ہو۔ اسکول کالج کے دور میں چھوٹی چھوٹی سماجی سرگرمیوں کا حصہ بننا ایک طرح کی انٹرن شپ ہے جو بچے کی شخصیت پر دیرپا اثرات چھوڑتی ہے۔
 
ایک مثال بیٹھک سکولز کی ہے۔
جامعہ کراچی کی چار طالبات نے مل کر کوڑا چننے والے بچوں کے لیے ایک سکول شروع کیا، جسے بیٹھک سکول کا نام دیا۔
اب اس وقت پورے ملک میں 470 بیٹھک سکولوں میں 17000 بچے بچیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ جو کہ تمام انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
میرے بھائی اور بہن فرحت سب نے بالکل ٹھیک سمجھا ہے۔
مجھے بہت سے نکات ملے ہیں۔
تابش بھائی!آپ نے یہ جو آخری پوسٹ میں فیگرز بھی دیے ہیں۔یہ بڑا مضبوط نکتہ ہے۔
ایسی ہی چند مثالیں اور مل جائیں تو بہت ہی اچھا ہو۔
 
میرے بھائی اور بہن فرحت سب نے بالکل ٹھیک سمجھا ہے۔
مجھے بہت سے نکات ملے ہیں۔
تابش بھائی!آپ نے یہ جو آخری پوسٹ میں فیگرز بھی دیے ہیں۔یہ بڑا مضبوط نکتہ ہے۔
ایسی ہی چند مثالیں اور مل جائیں تو بہت ہی اچھا ہو۔
کل جس ادارے کی انعامی تقریب میں گیا ہوا تھا۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ۔ ۱۹۹۷ء میں قائم ہوا۔ اور ان کا بنیادی کام ایسے علاقوں میں سکولز قائم کرنا ہے، جو دور دراز ہیں، اور وہاں تعلیم کی اطمینان بخش سہولیات میسر نہ ہوں۔ کام کا آغاز پنجاب سے کیا، اور اب ملک بھر میں ۷۰۰ سے زائد تعلیمی اداروں میں ۹۷۰۰۰ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جن میں کثیر تعداد الٹرا غریب گھرانوں کے بچوں کی ہے۔
 
Top