پ سے پنوشے۔پ سے پرویز

پاکستانی

محفلین
اگر آپ بغور مطالعہ کریں تو اکثر فوجی حکمرانوں کے حالاتِ زندگی حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو کیوں نہ اس کی آزمائش کے طور پر چلی کے سابق فوجی حکمراں آنجہانی جنرل آگستو پنوشے اور پاکستان کے موجودہ صدر جنرل پرویز مشرف کے حالاتِ زندگی کا موازنہ کیا جائے۔
جنرل آگستو پنوشے کے والد ایک متوسط سرکاری افسر ( کسٹم آفیسر) تھے۔ جنرل پرویز مشرف بھی ایک متوسط سرکاری افسر کے صاحبزادے ہیں۔
جنرل پنوشے نے اپنی والدہ کے زور دینے پر ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا تھا۔جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ والدہ کی خواہش تھی کہ بڑا بیٹا جاوید سی ایس پی افسر بنے۔ سب سے چھوٹا نوید ڈاکٹر بنے اور منجھلا یعنی پرویز فوج میں جائے۔
جنرل پنوشے کو چلی کے دو تہائی اکثریت سے منتخب سوشلسٹ صدر سلواڈور آلندے نے فوج کا کمانڈر انچیف نامزد کیا۔جنرل مشرف کو دوتہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم نواز شریف نے چیف آف اسٹاف مقرر کیا۔
جنرل پنوشے نے آلندے حکومت کا تختہ گیارہ ستمبر (نائن الیون) کو الٹا۔ جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ بارہ اکتوبر کو الٹا۔ (لیکن خود نائن الیون بقولِ خود جنرل مشرف کی پیشہ ورانہ زندگی کا اہم ترین سنگِ میل ہے)۔
جنرل پنوشے نے اقتدار سنبھالنے کے تین روز بعد چلی کے عوام سے پہلا پالیسی خطاب کیا۔جنرل پرویز مشرف نے بھی اقتدار سنبھالنے کے تین روز بعد پہلا پالیسی خطاب کیا۔
جنرل پنوشے نے اقتدار سنبھالنے کے بعد خود کو سپریم ہیڈ کہلوانا پسند کیا اور اٹھارہ ماہ بعد صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جنرل مشرف نے اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ تخلیق کیا اور بیس ماہ بعد رفیق تارڑ کی جگہ عہدہ صدارت سنبھال لیا۔
جنرل پنوشے نے سات برس بعد آئین میں ترمیم کرکے صدارتی ریفرینڈم کا راستہ ہموار کیا اور خود کو آٹھ برس کے لیے صدر منتخب کروایا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے بائیں بازو کی جماعتوں پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔جنرل مشرف نے برسرِ اقتدار آنے کے تین برس بعد آئین میں ترمیم کرکے صدارتی ریفرینڈم کے ذریعے خود کو پانچ برس کے لئے منتخب کروالیا۔اور دو سابق وزرائے اعظم کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔
جنرل پنوشے نے امریکن کوالیفائیڈ شکاگو بوائز کے نام سے معروف اقتصادی ماہرین کے گروپ کی مشاورت سے قومی صنعتوں اور اداروں کی نج کاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر عائد تمام پابندیاں ختم کرکے اقتصادی اصلاحات کا عمل شروع کیا۔جنرل مشرف یہی کام عالمی بینک اور سٹی بینک کے ماہرین کی مدد سے کررہے ہیں۔
جنرل پنوشے نے بائیں بازو کی دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے سی آئی اے اور ہمسایہ فوجی آمروں کی مدد سے آپریشن کونڈور شروع کیا۔ جنرل مشرف القاعدہ اور طالبان کے خلاف آپریشن میں امریکہ اور افغانستان سے قریبی تعاون کررہے ہیں۔اور اپنی خودنوشت کے مطابق سینکڑوں القاعدہ دہشت گردوں کو معاوضہ لے کریا بلا معاوضہ سی آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے۔
جنرل پنوشے کے دور میں بائیں بازو کے خلاف جہاد کے نام پر تین ہزار لوگ لاپتہ ہوئے۔ جنرل مشرف کے دور میں تاحال دو سو بیالیس افراد لاپتہ ہیں۔
جنرل پنوشے پر دورانِ اقتدار دو سنگین ناکام قاتلانہ حملے ہوئے۔ جنرل مشرف نے اپنی خودنوشت میں دو سنگین قاتلانہ حملوں کی روداد بیان کی ہے۔ جبکہ کئی ناکام سازشیں بھی افشا ہوچکی ہیں۔
جنرل پنوشے نے انیس سو نواسی میں دوسرا صدارتی ریفرینڈم کروایا مگر وہ ہار گئے۔ البتہ انہوں نے اس آئینی ترمیم کے بعد اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کیا کہ وہ اگلے دس برس تک فوج کے سربراہ اور تاحیات سینٹر رہیں گے۔
دیکھنا یہ ہے کہ جنرل مشرف اپنی دوسری مدتِ صدارت کے حصول اور فوج کے سربراہ کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے آئیندہ برس کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 
Top