پین چور ۔۔۔۔۔ از ۔۔۔۔۔ س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین
معاشرتی بیماری
’’پین چور‘‘

ایک زمانہ تھا جب سماعت میں ایسے سلجھے اور صاف ستھرے الفاظ پڑتے تھے کہ طبیعت خوش ہو جاتی تھی۔ گزرے زمانے میں جب لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کرتے تھے تو ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ سننے والے کو اپنی سماعت پر کسی قسم کا بار محسوس ہو۔کیا زمانہ تھا، سونے جیسا اور سونے جیسے لوگ۔ پلٹ کر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی بیش قیمت شے زندگی کی شاہرا ہ پر سامان کی زیادتی کے سبب اپنے ہاتھوں شاہراہ کنارے ، کسی ویران درخت کے قدموں میں چھوڑ آئے ہیں۔سچ ایک نشتر ِصیاد ہے یہ احساس ، جس نے سوچ کو ہمہ وقت اپنی گرفت میں کیا رکھا ہے کہ ہم ہم نہ رہے ۔ بد بد تر ہو تو افسوس ہوتا ہے مگر خوب تر بد تر ہو جائے تو افسوس کا احساس بھی اس تکلیف، پشیمانی کو اپنی آغوش میں نہیں لے پاتا جو آج اورگزرے کل کو آمنے سامنے کھڑا کردل و روح کو درد میں مبتلا کئے رکھتی ہے۔ یقین مانیں اب کوئی پل ایسا نہیں گزرتا جب سماعت پر بوجھ نہیں اترتا، کبھی کبھی خیال آتا ہے جو سماعت سے محروم ہیں وہ کتنے خوش قسمت ہیں اس معاملے میں کہ وہ باتیں ، وہ الفاظ ہی ان تک نہیں پہنچ پاتے جن پر سماعت اپنے آپ سے شرم محسوس کرنے لگتی ہے۔اب دیکھ لیں جناب کہیں دو نوجوان آپس میں گفتگو فرما رہے ہوں یا کہیں دو بزرگ حضرات یا کہیں دو ٹوپی والے یا داڑھی والے یا پھر ٹخنوں سے اونچی شلوار پہننے والے، یا کسی فرم میں بیٹھے سوٹ بوٹ میں ملبوس شخصیات۔غرض چاہے کوئی بھی ہو، عمر کے کسی حصے میں ہو، معاشرے کا کوئی بھی طبقہ ہوآپ ان کی گفتگو کے آغاز میں اوراس کے دوران کئی مرتبہ ایسے ایسے الفاظ سن لیں گے جن کا استعمال گزرے ہوئے کل میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ صاحب کیا لکھوں ، کیا کہوں، جو لکھنا چاہوں تو لکھ نہ پائوں گا، جو کہنا چاہتا ہوں وہ تمام کہہ نہ پائوں گا کہ باتیں ایسی ہیں کہ قلم صاف صاف لکھنے سے انکار کر رہا ہے۔ یہ وہ قلم ہے جو کسی سیاسی تنظیم سے کبھی ڈرا نہیں مگر پھر بھی جو فقیر لکھنا چاہتا ہے، جو کہنا چاہتا ہے وہ کھل کر نہیں کہہ پا رہا صرف اس قلم کے سبب۔ یہ سر کشی پر اتر چکا ہے، ضد ہے کہ میں جو سنتا ہوں اس کو یہ قلم لکھے گا نہیں۔ مگر پھر بھی اتنا ضرور کہوں گا کہ گلی محلہ، بازار ،گھر، دفتر حتی کہ بعض اوقات مسجد میں بھی ، غم ، خوشی، عید ، روزے، وضو، وفات تمام کیفیات، حالات، احساسات میں ۔۔’’ پین چور‘‘ اب اس بکھرے ہجوم کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس لفظ کی بازگشت صبح وشام سماعت میں گونجتی رہتی ہے۔

پہلے پہل ’’ پین چور‘‘ کا استعمال مرد حضرات ہی کرتے تھے مگر اب اس کی مقبولیت نے عورتوں کو بھی اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا ہے۔ ’’ پین چور‘‘ کو پہلے معاشرے کا ان پڑھ طبقہ ہی استعمال کیا کرتا تھا مگر اب تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس کو استعمال کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا۔بلکہ ’’ پین چور‘‘ سننے کے بعد سامنے والے کے چہرے کے تاثرات ایسے ہوتے ہیں جیسے مخاطب کرنے والے نے اپنی محبت کا بھرپوراظہار فرمایا ہے۔ پکی دوستی کی پہچان ہی لفظ ’’ پین چور ‘‘ سے ظاہر ہوتی ہے۔ اب معلوم نہیں کہنے والے نے اپنی ’’ پین ‘‘ ’’ چوری‘‘ کے لئے سننے والے کو پیش کی ہوتی ہے؟؟ یا پھر سننے والے نے کہنے والی کی خدمت میں اپنی ’’ پین‘‘ پیش کی ہوتی ہے؟؟ مگر محترم احباب آپ یہ سوال کبھی کسی سے پوچھ نہیں لینا ورنہ جو مزاج پرسی آپ کی ہوگی اس کا الزام اس خاکسار پر نہ لگانا، کہ دامن پہلے ہی داغ دار لئے بیٹھے ہیںہم۔خیر سے ’’ پین چور‘‘ اب دوستی کی علامت بن چکا ہے، آپ کو کسی سے دوستی کرنی ہو تو بے جھجھک اس کو ’’ پین چور‘‘ کہہ دیں۔ اس سے بڑی بے تکلفی اور قربت کا احساس فوراََ ہی درمیان میں عود آئے گا اور پھر جناب سمجھیں دوستی شروع پکی اور پکی۔ لفظ ’’ پین چور‘‘ برداشت کا ایسا سبق سکھاتا ہے کہ لوگ سامنے والے کی کوئی بھی ناگواربات برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں مگر کچھ ناسمجھ معاشرے کی اس برداشت کو بے حسی اور بد اخلاقی جیسی بھاری کیفیات سے ملا دیتے ہیں اور بلا وجہ معاشرے کے دامن پر سیاہی ملنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔سلام دعا کے بعد ’’ پین چور‘‘ آپس کے رشتے میں بجلی کی سی تیزی سے اثر کر تا ہے اور لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ ’’ پین چور‘‘ کے ساتھ ایسے رشتے کا استعمال بھی کرتے ہیں جو آپس کی قربت بڑھانے میں معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی ’’ سالے پین چور‘‘۔

کیا بتائوں صاحب اب تو یہ لفظ کسی کی پوری شخصیت کو مکمل بیان کرنے کے بھی کام آتا ہے جیسے ایک صاحب نے کسی ع نامی صاحب کی بابت ان سے سوال کیا تو محترم نے چھوٹتے ہی فرمایا’’ میاں بڑا پین چور آدمی ہے وہ تو‘‘ یعنی کبھی لکھتے تھے کہ فلاں صاحب بڑی سحر انگیز طبیعت کے مالک تھے تو اب یہ بھی لکھا جانے لگے گا کہ فلاں صاحب بڑی پین چور شخصیت کے مالک تھے۔کیا کہنے ہیں جی،چھوٹی بستی میں ایسی بات تو ہو ہی جاتی ہے کہ گھر اور گھر والے باہر والوں کی باتوں سے بھی مستفید ہوتے رہتے ہیں، بس جی ہمارے عزیز کے صاحبزادے نے بھی گلی سے آتی ہوئی آوازوں کو یاد کر لیا اور اپنے بابا کے سامنے کہہ دیا ، محترم کو کچھ اور سمجھ تو نہیں آیاتو فوراََ بیٹے کا ذہن اس لفظ سے ہٹانے کے لئے کہہ اٹھے ۔۔’’ بیٹا صحیح لفظ پین چور ہوتا ہے، آپ نے غلط لفظ بولا ہے‘‘۔ اور ہم نے بھی یہ’’ پین چور‘‘ یاد کر لیا اور آپ تک پہنچا دیا۔

کیا کریں پورا معاشرہ’’ پین چور ‘‘کا ایسا ورد کرنے لگا ہے کہ اگر اتنا ودر اللہ کے کسی ایک بابرکت نام کا کیا جاتا تو معاشرے سے’’ پین چور‘‘ اور ایسے دیگر کئی الفاظ اپنے جیون سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔مگر جناب اللہ اللہ کہنا کیا ، ہم نے تو سہہ روزہ لگانے والے کو جب عین کھانے کے دوران’’ پین چور‘‘ کہتے سنا تو ان کو ٹوکے بنا رہ نہ سکے مگر جناب انھوں نے فلاں صاحب کو ’’پین چور ‘‘کہنے کی اتنی تاویلیں سنا دیں کہ ہم نے خاموش رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ابھی رمضان گزرے زیادہ وقت نہیں ہوا اس لئے رمضان میں دیکھا ایک جھگڑا اور اس دوران سنے گئے کلمات اب تک یاد ہیں۔ قصہ یوں تھا کہ بس میں مسافر اور کنڈیکٹر آپس میں الجھ گئے تو مسافر جی نے کوئی کسر نہ چھوڑتے ہوئے کہا ’’پین چور میرا روزہ نہ ہوتا تو تجھے بتاتا ‘‘۔ یعنی کہ روزہ تھا اس لئے’’ پین چور‘‘ کہنے ہی میں اکتفا کیا جناب نے۔

لفظ ’’پین چور ‘‘تو مہذب لوگوں کی بول چال کا بڑا مہذب حصہ ہے۔ فقیر کے دفتر میں اے سی سی اے ، سی اے کئے احباب بڑی روانی سے پین چور پین چورکی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ لفظ’’ پین چور‘‘ اپنے دامن میں بہت پاک اور اچھے احساس لئے ہوئے ہے اور مجھ جیسےلوگ فضول میں لفظ ’’پین چور‘‘ کی مقبولیت سے خائف ہو کر حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور’’ پین چور‘‘ کہنے والوںاور لفظ’’ پین چور‘‘ کے خلاف محاذ بنائے بیٹھے ہیں۔یقین ہے کوئی یہ تحریر پڑھ کر یہ ضرور کہے گا ’’بڑی پین چور تحریر ہے‘‘یا پھر کہاجائے گا ’’ سالا پین چور بہت پارسا بن رہا ہے‘‘۔

رخصت ہوتے ہوئے فقیر اس دعاپر گفتگو تمام کرتا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قیامت کی بری نشانیاں بنے سےمحفوظ فرمائے۔اور ہمیں اپنی زبان کو اچھے کلمات سے سجانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین​

س ن مخمور
امر تنہائی
 

عثمان

محفلین
معلوم نہیں کہ یہ آپ کی املاء کی غلطی ہے یا آپ اصل لفظ ہی سے نا واقف ہیں۔ یہ لفظ "چور" نہیں ہے۔ درست لفظ کے لیے لغت سے رجوع کریں کہ معاشرتی ٹیبو کے سبب مجھے یہاں لکھتے ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی ہے۔
بہرحال انوکھے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
کاش کہ اس تحریر میں پنہاں پیغام ہم سمجھ جائیں ۔
اپنی اصلاح کر لیں ۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ یہ عادت عام ہے ہمارے معاشرے میں ۔۔۔۔
اللہ ہمیں ہدایت سے نوازے آمین
بہت دعائیں
 

loneliness4ever

محفلین
معلوم نہیں کہ یہ آپ کی املاء کی غلطی ہے یا آپ اصل لفظ ہی سے نا واقف ہیں۔ یہ لفظ "چور" نہیں ہے۔ درست لفظ کے لیے لغت سے رجوع کریں کہ معاشرتی ٹیبو کے سبب مجھے یہاں لکھتے ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی ہے۔
بہرحال انوکھے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔


نہیں عثمان بھائی اس لفظ سے کون واقف نہیں ہوگا:cry:
میں نے کچھ پردہ کیا ہے خود مجھے میرا قلم اجازت نہیں دے رہا تھا اس لئے تبدیلی کو بہتر پایا
 

عثمان

محفلین
نہیں عثمان بھائی اس لفظ سے کون واقف نہیں ہوگا:cry:
میں نے کچھ پردہ کیا ہے خود مجھے میرا قلم اجازت نہیں دے رہا تھا اس لئے تبدیلی کو بہتر پایا
ایک سنجیدہ مضمون میں لفظ کا تذکرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم ایک متبادل طریقہ کچھ حروف کی جگہ ستارہ (×) لگا دینا بھی ہے۔ :)
 

loneliness4ever

محفلین
ایک سنجیدہ مضمون میں لفظ کا تذکرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم ایک متبادل طریقہ کچھ حروف کی جگہ ستارہ (×) لگا دینا بھی ہے۔ :)


بہترین بہت بہترین ۔۔۔۔
خوب توجہ مبذول کروائی جناب نے، بہت خوب یہ ستارہ (×) خوب کام دے گا
آئیندہ یاد رکھوں گا عزیز بھائی کا مشورہ ۔۔۔ جزاک اللہ
 

نور وجدان

لائبریرین
میرے لیے یہ لفظ نیا ہے مگر آپ نے جس دکھ میں لکھا ہےوہ آپ کی حساسیت کی مکمل ترجمانی کر رہا ہے ۔ لکھتے رہیں ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کرے زور ِِ قلم اور زیادہ ۔۔
حساس روح کی داستان ۔۔
 

loneliness4ever

محفلین
بہت خوب تحریر ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے آمین

میرے لیے یہ لفظ نیا ہے مگر آپ نے جس دکھ میں لکھا ہےوہ آپ کی حساسیت کی مکمل ترجمانی کر رہا ہے ۔ لکھتے رہیں ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کرے زور ِِ قلم اور زیادہ ۔۔
حساس روح کی داستان ۔۔

عثمان بھائی
نایاب بھائی
اور دیگر تمام احباب کی آمد اور اظہار خیال پر فقیر ممنون و مسرور ہے
اور تمام حاضرین کا شکر گزار کہ خاکسار کو اپنا قیمتی وقت عنایت کیا
دعا ہے مالک ہم تمام پر اپنا فضل فرمائے ۔۔۔۔۔ آمین
 

جاسمن

لائبریرین
تلخ حقیقت بیان کی ہے۔ہمارے پنجابیوں میں تو یہ بہت عام ہے۔ واقعی بالکل بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ چھوٹے تو چھوٹے بزرگ حضرات بھی اس قبیح عادت میں مبتلا ہیں۔ پہلے لوگ خواتین کے احترام میں ایسے الفاظ نہیں استعمال کرتے تھے۔ اب یہ بھی نہیں رہا۔
ہماری دوست کا چھوٹا بھائی کہیں سے ایک گالی سیکھ آیا۔ ماں پریشان کیا کروں ۔ایک ترکیب سوجھی۔ جب انہیں غصہ آتا تو زور سے بلند آواز سے کہتیں۔"جا اللہ تمہں حج کرائے۔"
بچے نے بھی غصہ میں یہی الفاظ کہنے شروع کر دیے۔
مجھے اپنے بچوں پہ غصہ آتا ہے تو کہتی ہوں۔"اللہ تمہارا بھلا کرے۔"
پہلے بزرگ ایسے ہی کہتے تھے۔"تیرا بیڑہ تر جائے!"
 

loneliness4ever

محفلین
تلخ حقیقت بیان کی ہے۔ہمارے پنجابیوں میں تو یہ بہت عام ہے۔ واقعی بالکل بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ چھوٹے تو چھوٹے بزرگ حضرات بھی اس قبیح عادت میں مبتلا ہیں۔ پہلے لوگ خواتین کے احترام میں ایسے الفاظ نہیں استعمال کرتے تھے۔ اب یہ بھی نہیں رہا۔
ہماری دوست کا چھوٹا بھائی کہیں سے ایک گالی سیکھ آیا۔ ماں پریشان کیا کروں ۔ایک ترکیب سوجھی۔ جب انہیں غصہ آتا تو زور سے بلند آواز سے کہتیں۔"جا اللہ تمہں حج کرائے۔"
بچے نے بھی غصہ میں یہی الفاظ کہنے شروع کر دیے۔
مجھے اپنے بچوں پہ غصہ آتا ہے تو کہتی ہوں۔"اللہ تمہارا بھلا کرے۔"
پہلے بزرگ ایسے ہی کہتے تھے۔"تیرا بیڑہ تر جائے!"


جی یہ ایک بہتر طریقہ ہے ۔۔۔۔۔ بچے بڑوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں
جب تک کس کے گھر بچے نہ ہوں تب تک تو اٹھنے بیٹھنے بولنے میں
بہت آذادی ہوتی ہے مگر جب گھر میں بچے ہو جائیں تو پھر ماں باپ
کو بہت سی عادتیں بہت سی باتیں ترک کرنا لازمی ہو جاتی ہیں

اللہ ہم سب کو ہدایت پانے والوں میں شمار فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
 
Top