فارسی شاعری پیمانہ بدہ کہ خمار استم - زیب و ہانیہ، ترجمے کے ساتھ

سلام علیکم

چند دن پہلے، محفل پر اس گانے کے بول اور ترجمے کی درخواست ہوئی، اس کا ایک ترجمہ محترم جناب ابن ضیاء صاحب کے بلاگ پر موجود ہے جو ظاہرا خود انہوں نے کیا ہے۔ بہت اچھا ترجمہ ہے، لیکن اس میں بعض جگہوں پر چند ایک غلطیاں ہیں، جن کی اصلاح ضروری سمجھتا ہوں۔ لہذا یہاں اشعار ترجمے کے ساتھ لکھ رہا ہوں، امید ہے کہ کوئی ناراضگی پیش نہیں آئے گی۔
اور اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ اس کے بول سمجھنے میں ابن ضیاء صاحب کے بلاگ سے بہت مدد ملی۔ بس چند ایک شعر ایسے تھے جو صحیح نہیں لکھے تھے، جن کی اصلاح کر دی۔
ابن ضیاء صاحب سے معذرت چاہتا ہوں۔
ملاحظہ ہو:

پیمانہ بدہ کہ خمار استم 1 (جام دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
بدہ بدہ کہ خمار استم (دے، دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
چشمت کہ بہ آہوئے ختن می ماند (تیری آنکھیں ختن کی ہرن جیسی ہیں)
رویت بہ گلاب ہائے چمن می ماند (تیرا چہرہ باغ کے گلابوں کی طرح خوبصورت ہے)
گل را بکنید ورق ورق مویہ کنید (پھول کی پتیاں الگ کرکے نالہ و فریاد کریں)
تا لالہ عزارے بہ وطن بیارد 2 (تاکہ اس پھول سے چہرے والے کو گھر لے آئے)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
بدہ بدہ کہ خمار استم (دے، دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
از آمدنت اگر خبر می داشتم (اگر تیرے آنے کی خبر مجھے ملے)
پیشِ قدمت کوچہ را گل می کاشتم (تیرے آنے سے پہلے گلی میں پھول لگا دیاتا)
گل می کاشتم گلِ گلاب می کاشتم (پھول لگاتا، گلاب کے پھول لگاتا)
خاکِ قدمت بدیدہ می واداشتم (تیرے قدموں کی خاک اپنی آنکھوں پر رکھتا)
پیمانہ بدہ ۔۔۔ (جام دے۔۔۔)
پیمانہ بدہ۔۔۔ (جام دے۔۔۔)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
بدہ بدہ۔۔۔ (دے، دے)
اے۔ وائے وائے
بدہ بدہ۔۔۔ (دے، دے)
وائے وائے وائے
بدہ بدہ کہ خمار استم (دے، دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)

1۔ استم، ہستم کی پرانی شکل ہے، یہ لفظ جدید فارسی میں اس طرح استعمال نہیں ہوتا۔ معنی میں دونوں ٹھیک ہیں۔
2۔ یہ جملہ کافی غیر واضح ہے، میں اس سے یہی سمجھا ہوں، اور مفہوم کے لحاظ سے یہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے کچھ اور ہو، جس کے لیے خود گانے والیوں سے رابطہ کرنا پڑے گا۔:)
 

حسان خان

لائبریرین
بہت خوبصورت ترجمہ ہے گانا سننے کا مزہ تو اب آے گا.
مہربانی فرما کر " آہوے ختن" میں ختن کیا ہے
. آداب.
'خُتن' مشرقی تُرکستان کے ایک شہر کا نام ہے، جو فارسی ادبیات میں اپنے مُشک دار آہُوؤں اور خوب رُوؤں کے لیے مشہور رہا ہے۔
 

Farhan

محفلین
سلام علیکم

چند دن پہلے، محفل پر اس گانے کے بول اور ترجمے کی درخواست ہوئی، اس کا ایک ترجمہ محترم جناب ابن ضیاء صاحب کے بلاگ پر موجود ہے جو ظاہرا خود انہوں نے کیا ہے۔ بہت اچھا ترجمہ ہے، لیکن اس میں بعض جگہوں پر چند ایک غلطیاں ہیں، جن کی اصلاح ضروری سمجھتا ہوں۔ لہذا یہاں اشعار ترجمے کے ساتھ لکھ رہا ہوں، امید ہے کہ کوئی ناراضگی پیش نہیں آئے گی۔
اور اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ اس کے بول سمجھنے میں ابن ضیاء صاحب کے بلاگ سے بہت مدد ملی۔ بس چند ایک شعر ایسے تھے جو صحیح نہیں لکھے تھے، جن کی اصلاح کر دی۔
ابن ضیاء صاحب سے معذرت چاہتا ہوں۔
ملاحظہ ہو:

پیمانہ بدہ کہ خمار استم 1 (جام دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
بدہ بدہ کہ خمار استم (دے، دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
چشمت کہ بہ آہوئے ختن می ماند (تیری آنکھیں ختن کی ہرن جیسی ہیں)
رویت بہ گلاب ہائے چمن می ماند (تیرا چہرہ باغ کے گلابوں کی طرح خوبصورت ہے)
گل را بکنید ورق ورق مویہ کنید (پھول کی پتیاں الگ کرکے نالہ و فریاد کریں)
تا لالہ عزارے بہ وطن بیارد 2 (تاکہ اس پھول سے چہرے والے کو گھر لے آئے)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
بدہ بدہ کہ خمار استم (دے، دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
از آمدنت اگر خبر می داشتم (اگر تیرے آنے کی خبر مجھے ملے)
پیشِ قدمت کوچہ را گل می کاشتم (تیرے آنے سے پہلے گلی میں پھول لگا دیاتا)
گل می کاشتم گلِ گلاب می کاشتم (پھول لگاتا، گلاب کے پھول لگاتا)
خاکِ قدمت بدیدہ می واداشتم (تیرے قدموں کی خاک اپنی آنکھوں پر رکھتا)
پیمانہ بدہ ۔۔۔ (جام دے۔۔۔)
پیمانہ بدہ۔۔۔ (جام دے۔۔۔)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
من عاشقِ چشمِ مستِ یار استم (میں یار کی مست آنکھوں کا عاشق ہوں)
بدہ بدہ۔۔۔ (دے، دے)
اے۔ وائے وائے
بدہ بدہ۔۔۔ (دے، دے)
وائے وائے وائے
بدہ بدہ کہ خمار استم (دے، دے کہ خمار ہوں)
پیمانہ بدہ کہ خمار استم (جام دے کہ خمار ہوں)

1۔ استم، ہستم کی پرانی شکل ہے، یہ لفظ جدید فارسی میں اس طرح استعمال نہیں ہوتا۔ معنی میں دونوں ٹھیک ہیں۔
2۔ یہ جملہ کافی غیر واضح ہے، میں اس سے یہی سمجھا ہوں، اور مفہوم کے لحاظ سے یہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے کچھ اور ہو، جس کے لیے خود گانے والیوں سے رابطہ کرنا پڑے گا۔:)
----------
تا - جب تک
لالہ - لالہ
عزارے بہ وطن - وطن کے لئے سوگوار
بیارد - لوٹ آے
 
Top