خورشید رضوی پیش نظر جو پھر وہی دیوار و در ہوئے

نمرہ

محفلین
پیش نظر جو پھر وہی دیوار و در ہوئے
بام ِ تصورات پہ تم جلوہ گر ہوئے

ٹکڑے اڑے جگر کے تو نکھراغزل کا روپ
ہم سنگ باریوں کے سبب شیشہ گر ہوئے

اس پیرہن کے لمس کو ترسے ہیں عمر بھر
جس کے لیے غبار ِسر رہگزر ہوئے

آئی تری صدا تو سماعت میں ڈھل گئے
ابھرا ترا جمال تو تارِ نظر ہوئے

ان راستوں میں آج بھی ہے ان دنوں کی باس
جو دن کسی کی ہمقدمی میں بسر ہوئے

دل آج بھی چراغ اسی انجمن کا ہے
صدیاں گزر گئیں جسے زیر و زبر ہوئے

اب وہ دیار بھی ہمیں پہچانتا نہیں
اک عمر جس میں نالہ سرا در بدر ہوئے

راہیں کٹھن ہوئیں تو مہکنے لگی غزل
وہ محمل ِسخن میں مرے ہمسفر ہوئے

خورشید میری سوختہ پائی کے فیض سے
سب نقش ِ پا چراغ سرِ رہگزر ہوئے​
 

بے الف اذان

محفلین
پیش نظر جو پھر وہی دیوار و در ہوئے
بام ِ تصورات پہ تم جلوہ گر ہوئے

ٹکڑے اڑے جگر کے تو نکھراغزل کا روپ
ہم سنگ باریوں کے سبب شیشہ گر ہوئے

اس پیرہن کے لمس کو ترسے ہیں عمر بھر
جس کے لیے غبار ِسر رہگزر ہوئے

آئی تری صدا تو سماعت میں ڈھل گئے
ابھرا ترا جمال تو تارِ نظر ہوئے

ان راستوں میں آج بھی ہے ان دنوں کی باس
جو دن کسی کی ہمقدمی میں بسر ہوئے

دل آج بھی چراغ اسی انجمن کا ہے
صدیاں گزر گئیں جسے زیر و زبر ہوئے

اب وہ دیار بھی ہمیں پہچانتا نہیں
اک عمر جس میں نالہ سرا در بدر ہوئے

راہیں کٹھن ہوئیں تو مہکنے لگی غزل
وہ محمل ِسخن میں مرے ہمسفر ہوئے

خورشید میری سوختہ پائی کے فیض سے
سب نقش ِ پا چراغ سرِ رہگزر ہوئے​
بے حد خوبصورت ! شیئر کرنے کا بے حد شکریہ
 
Top