پیر اور بر صغیر (پیر یا پیڑ)

اصل موضوع اور مدعا کی طرف آنے سے قبل چند اہم باتیں؛ میرا مقصد تصوف، صوفیاء یا حقیقی پیر، مشائخ کرام کے خلاف لکھنا نہیں۔ میں خود تصوف و طریقت سمیت اولیاء کا قائل ہوں لیکن قائل ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جو اپنی زبان سے میاں مٹھو بن بیٹھے ہم اس کو ولی یا پیر مان لیں۔ اسلاف امت میں سلاسل طریقت، تصوف، اولیاء کی بیعت و ارادت کرنا سب ثابت ہے۔ لیکن افسوس طلب امر یہ ہے، خاص طور پر ہمارے ہاں بر صغیر میں یہ المیہ ہے کہ پیری مریدی تصوف و طریقت، معرفت و سلوک کو چھوڑ کر فقط ایک رسم رہ گئی ہے اور پیسہ کمانے کا ایک دھندہ بن گیا ہے۔ ہر شہر میں گلی گلی کوئی بابا، پیر بیٹھا ہے جس کا شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کوئی لمبے لمبے بال رکھ کر، کوئی ہاتھ کی پانچ انگلیوں میں دس انگوٹھیاں پہن کر دین کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان پیروں اور بابا لوگوں کو نماز اور شریعت کی پرواہ تک نہیں۔ ستم بالائے ستم تو یہ کہ عوام الناس نے بھی دین کو اس قدر معاذ اللہ ثم معاذ اللہ حقیر سمجھ رکھا ہے کہ اگر سر درد ہو تو ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر دوائی نہیں لیتے لیکن شریعت اور اسلام کا مسئلہ ہو، طریقت اور تصوف کی بات ہو تو کسی بھی جاہل کے سامنے جا بیٹھتے ہیں۔ پیران کرام اور شیخ کا کام کیا ہوتا ہے، پیر یا شیخ کی شرائط کیا ہوتی ہیں، کون پیر ہو سکتا ہے اور کون نہیں؟ ان باتوں کا گلی گلی بیٹھے جاہل پیروں کو علم ہے نہ ان پیروں کے پاس جانے والی عوام کو۔ ہمارے ہاں دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ جس کے دادا، پردادا اللہ کے ولی، بزرگ تھے آج ان کی اولادیں پیر بنی بیٹھی ہیں اور عوام الناس اندھی محبت میں گم ہیں۔ جبکہ حدیث مبارکہ میں تو یہ مضمون بھی ملتا ہے کہ حضورﷺ نے سیدہ کائنات سے فرمایا تھا کہ اے فاطمہ یہ نہ سمجھنا کہ نبی کی بیٹی ہو، بلکہ اعمال دارومدار کرتے ہیں، اور سیدہ کائنات ساری ساری رات سجدوں میں گزارتیں، صحابہ میں سے کوئی ایک بھی نماز چھوڑ کر اللہ والا نہیں بنا۔ اسلاف امت میں ہمیں کہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کسی شیخ، بزرگ، پیر کی اولاد بھی پیر بنی ہو۔ کسی کا والد فوت ہوا تو شریعت و طریقت کے علم سے جاہل بیٹا جو باپ کا جنازہ تک نہ پڑھا سکتا ہو وہ باپ کا گدی نشین بن گیا ہو۔ آپ تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں آپ کو کہیں کسی امام طریقت و شریعت کی اولاد (جو علم و عمل سے جاہل ہو) اپنے بڑوں کے جانے کے بعد گدی سنبھالتی نظر نہ آئے گی۔
باپ فوت ہوا تو اب اس کا بیٹا، بھتیجا، بھانجا سب پیر بن گئے یہ جاہلانہ رسم ہندؤوں اور فرعونوں کی ہے۔ ان کا پروہت مر جاتا تو اس کے خاندان میں سے اس کے بعد کے بڑے کو پروہت بنا دیا جاتا یا پھر یہ رسم فرعونوں کی تھی کہ باپ مرتا تو بیٹا باپ کے تخت پر بیٹھ جاتا اور پھر وہ فرعون کہلاتا۔ اسلام میں تو قطعاً یہ نہ تھا۔ اگر طریقت اور پیری مریدی اسی رسم کا نام ہوتا تو امام طریقت، تصوف کے موضوع پر قلم اٹھانے والے پہلے امام، امام قشیری کی اولاد در اولاد کی گدی آج بھی چل رہی ہوتی۔ اگر طریقت اسی چیز کا نام ہوتا تو حضرت داتا گنج بخش کی اولاد آج تک گدی نشین چلی آ رہی ہوتی۔ علی ھذا القیاس۔ ہمارے ہاں ہر مرنے والے کی اولاد پیر بن جاتی ہے۔ عوام تو عوام بعض اوقات علماء، مفتیان کرام بھی کسی پیر صاحب کے جاہل صاحبزادے کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ کیا طریقت اور تصوف اسی جہالت کا نام ہے؟؟ حالانکہ تصوف و طریقت بغیر شریعت کے علم کے ممکن ہی نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ اس کو اپنا دوست اور ولی بنا لے جو اللہ اور اس کے رسول کی شریعت پر عمل ہی نہ کرتا ہو، جو اللہ و رسول کے حکم نہیں مانتا وہ عاشق اور ولی کاہے کا؟؟؟ آپ اسماء الرجال و تاریخ کی کتب کے سمندر میں غوطہ زنی کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلاف میں جو جو بھی آئمہ طریقت کہلوائے وہ سب شریعت کے عالم بھی تھے، اپنے دور کے محدث اور فقیہ تھے۔ کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے شریعت کی الف بے نہ دیکھی ہو، جس کو نماز کے واجبات تک کا علم نہ ہویا بے نمازی ہو، جسے اتنا علم نہ ہو کہ سجدہ کرنے کی شرائط میں کتنی ہڈیوں کا زمین پر لگنا لازم ہے اور وہ شیخ اور پیر بن گیا ہو۔ آپ داتا گنج بخشؒ، غوث اعظمؒ، امام قشیریؒ وغیرہم کسی کی سوانح پڑھ لیں آپ کو ان کے اساتذہ میں بے شمار حضرات محدثین و فقہاء ملیں گے۔ وہ پیر، شیخ یا اللہ کا ولی کیسے ہو سکتا ہے جو اللہ کے محبوب ﷺ کے دین سے جاہل ہو، جس کا ہر عمل اللہ کے محبوب ﷺ کے حکم اور ان کی حدیث کے مخالف ہو، کیا ایسے جاہل کو اللہ اپنا ولی بنائے گا؟؟
میں تعویذ، سماع وغیرہ کا قائل ہوں لیکن پیران کرام، مشائخ کرام کا کام فقط تعویذ دینا، سماع کی شرائط کو پس پشت ڈال کر گمراہ کن اشعار پر مبنی سماع کروانا، دھمالیں ڈالنا تو نہیں تھا۔ اولیاء تو وہ تھے جو اپنے مریدین کو نمازوں کا پابند بناتے تھے ان کو شریعت کی تعلیم دیتے تھے۔ لیکن آج کل تو پیر، بابا لوگ خود نماز نہیں پڑھتے اور اگر کوئی پوچھ لے کہ پیر صاحب نے نماز کب ادا کرنی ہے تو ان کے پڑھے لکھے جاہل مرید فرماتے ہیں کہ پیر صاحب مراقبے میں ادا فرما لیتے ہیں، حیرت ہے ایسے پیر نماز تو مراقبے میں ادا کرتے ہیں لیکن مرغ و بریانی کے چٹ پٹے کھانے ہوش و ہواس میں کھاتے ہیں۔
اولیاء، پیران کرام، مشائخ تو وہ تھے جو شریعت پر عمل پیرا ہوتے تھے، جن کے سامنے اگر کوئی غیر عورت آ جاتی تو وہ خود نظریں جھکا لیتے، اس کو پردے کا حکم دیتے لیکن آج کل بدبخت اپنے آپ کو پیر کہلوانے والے مریدنی کے نام پر عورتوں سے گلے ملتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ایسا کوئی بھی شخص چاہے اس کے سر پر عمامہ ہو، لمبا تڑنگا جبہ پہن کر بیٹھا ہو یا اپنے آپ کو درویش ثابت کرنے کے لئے ایک تہبند میں بیٹھا ہو، ہوا میں اڑتا ہو، گھنٹوں دھمالیں ڈالتا ہو، وہ زبان سے الفاظ نکالے تو بات پوری ہوتی ہو، جو کچھ بھی ہو لیکن اگر اس کا ایک عمل بھی شریعت کے حکمِ قطعی یا صریح حکم کے منافی ہے تو وہ جادوگر، دجال تو ہو سکتا ہے، وہ شیطان کا چمچہ تو ہو سکتا ہے اللہ کا ولی قطعاً نہیں ہو سکتا۔ لازمی نہیں کہ جس کی بات پوری ہو جائے وہ اللہ کا ولی بھی ہو، دجال کے بارے میں احادیث کا مفہوم ہے کہ وہ جو چاہے گا کرے گا۔ لہذا ایسا شخص جس کا کوئی عمل شریعت کے منافی ہے تو وہ اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا۔ جس کی چھوٹی سی مثال ہے یہ ہے کہ مرد کے لئے سونا پہننا یا چاندی کی ایک وقت میں ایک نگینے والی ایک انگوٹھی سے زیادہ پہننا حرام ہے۔ لہذا جو شخص سونا یا کئی کئی انگوٹھیاں پہنے بیٹھا ہو، وہ خود حرام فعل کا مرتکب ہو کر گناہ کبیرہ کر رہا ہے تو وہ دوسروں کی تربیت کیا خاک کرے گا؟
علم میں اضافے کے لئے اسلاف امت کی تعلیمات کی روشنی میں پیر، شیخ کی شرائط پیش کرتا ہوں؛
۱۔ پیر یا شیخ کا سلسلہ طریقت حضور نبی اکرم ﷺ تک مستقل اور متصل ہو۔ لازمی نہیں کہ وہ سید زادہ اور آل رسول ہو۔ لیکن اس کا طریقت کا سلسلہ کہ اسے خود کس سے اجازتِ طریقت ہے /مرید کرنے کی اجازت کس سے ہے۔ اسی طرح مکمل سلسلہ/چین حضور نبی اکرم ﷺ تک ہو۔
۲۔ پیر صاحب کا عقیدہ درست ہو۔ اور عقیدہ درست اس وقت ہو گا جب پیر صاحب کو عقیدہ کا علم ہو گا۔ ستم تو یہ کہ اگر موجودہ پیروں سے عقیدہ کی لفظی اور اصطلاحی تعریف پوچھ لی جائے تو دودھ کا دوھ پانی کا پانی ہو جائے۔ اور ظلم کی انتہاء کہ کئی آستانوں، پیروں، بابا لوگوں کی باتیں سنو تو حددرجہ کفر بکتے ہیں۔ شطحیات کے نام پر طرح طرح کے الاپ شناپ بولتے ہیں۔ جس کو عقیدہ کا علم ہی نہ ہو، یہ ہی علم نہ ہو کہ کون کون سے نظریات کا تعلق عقیدہ سے ہے تو اس کا عقیدہ درست کیا خاک ہو گا؟؟
۳۔ پیر عالم دین ہو۔ مقولہ ہے کہ”علم نتواں خدارا شناخت“ بے علم/ جاہل کو اللہ تعالی کی معرفت نصیب نہیں ہوتی۔جو علم سے ہی جاہل ہے، عالم ہی نہیں ہے تو عارف کیسے ہو سکتا ہے؟؟ لہذا جو اپنے آپ کو پیر کہے تو پہلے دیکھ لیں کہ اس نے کم از کم شریعت کا علم کس سے پڑھا ہے؟؟ آیا شریعت اور دین پڑھا بھی ہے کہ نہیں؟؟ کیونکہ بغیر علم کے عبادت کرنے والا شیطان کے ہاتھ میں مسخرہ ہوتا ہے۔ حکایات و روایات اس پر دال ہیں کہ فقط عابد کو شیطان باآسانی برباد کر دیتا ہے۔ احادیث مطہرہ کا مفہوم بھی ہے کہ شیطان کے لئے ایک عالم ایک ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔ لہذا جس نے علمِ شریعت و دین کو پڑھا ہی نہیں، جو قرآن کے احکامات، متشابہات، تفسیر، ناسخ و منسوخ وغیرہ، حدیث کے احکام، علل وغیرہ یا فقہ کے اصول و مسائل کو نہیں جانتا تو وہ دوسروں کی تربیت کیسے کر سکتا ہے اور دوسروں کا پیر اور شیخ کیسے بن سکتا ہے؟؟ ستم تو یہ کہ ہمارے ہاں ایسے جاہل شخص کو جسے طریقت کا معنی نہیں معلوم، جو شریعت کی شین سے واقف نہیں ہے اسے پیر طریقت اور رہبر شریعت کے القابات دے کر دین کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے۔
۴۔ پیر فاسق معلن نہ ہو۔ یعنی کہ وہ احکام جو گناہ کبیرہ ہیں، جن سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ وہ کام کرنے والا نہ ہو۔ لہذا ایسا شخص جو نماز نہیں پڑھتا، عورتوں کو مریدنیوں کے نام پر گلے لگاتا ہے، ہاتھ میں کئی کئی انگوٹھیاں پہنتا ہے، ننگا تڑنگا رہتا ہے، کوئی بھی عمل شریعت کے حکمِ قطعی کے خلاف کرتا ہے، وہ چاہے کرامت کے نام پر سمندر کا رخ موڑ دے، جادوگر تو ہو سکتا ہے لیکن اللہ کا ولی یا پیر نہیں ہو سکتا۔
عوام الناس سے عرض ہے کہ خدارا اپنے ایمان اور دین کو ایسے بدبختوں سے محفوظ رکھیں۔ ان پڑھ جاہل پیر، گلی گلی بیٹھے بابے، ہر الٹے سیدھے کام کے لئے تعویذ بیچتے لوگ قطعاً پیر نہیں ہو سکتے۔ اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو ان کے پاس جانے سے روکیں۔ یہ لوگ دیندار اور کسی اللہ کے ولی یا بزرگ کے نہیں بلکہ دین کے دشمن اور ہندؤوں کے پروہتوں کے گدی نشین ہیں۔ کوئی بزرگ فوت ہوں تو ان کی اولاد اگر شریعت و دین کے علم سے جاہل ہے، ان کے اعمال احکامِ شریعت سے منافی ہیں وہ قطعاً پیر نہیں ہو سکتے اور ایسے جاہل لوگوں کو بزرگوں کا گدی نشین بنانا، ان کی بیعت کرنا، ان کا ادب کرنا سب حرام اور گنا ہ ہے۔
احباب اقتدار سے بھی عرض ہے کہ اس طرح سے دین کا نام بگاڑنا، دین کو بیچنا، دین کے نام پر بے غیرتی کرنا، حرام کاموں کو اپنی کرامت کہنا، گھٹیا حرکتوں کو مجذوبیت کہنا، دین کے مخالف کام کر کے پہنچی ہوئی شخصیت بننا، لوگوں کو دین و شریعت سے دور کرنا بھی رسول اللہ ﷺ کے دین کی گستاخی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف باقاعدہ آپریشن ہونا چاہئے اور ان کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔ (والسلام)
 
Top