اختر شیرانی پیاری چلی جاؤ گی کیا؟

شیزان

لائبریرین
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟


مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا؟
میری نگاہِ شوق کو فُرقت میں ترساؤ گی کیا؟
اُف حشرتک یہ چاندسی صورت نہ دِکھلاؤ گی کیا؟


اور پھر نہیں آؤ گی کیا؟
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟


کیا جنّتِ دیدار سے محروم ہو جاؤں گا میں؟
اِس محشرِ انوار سے محروم ہو جاؤں گا میں؟
ہاں کیا تمہارے پیار سے محروم ہو جاؤں گا میں؟


اُف یہ ستم ڈھاؤ گی کیا؟
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟


کیا سُن رہا ہوں آہ میں، دُشمن کے گھر جاؤ گی تم!
اور اُس قفس سے پھر رہا ہونے نہیں پاؤ گی تم!
میری تسلّی کے لئے واپس نہیں آؤ گی تم!


سچ مُچ نہیں آؤ گی کیا؟
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟


کیا یہ وفا ہے، بے وفا، ایسی وفا ہوتی ہے کیا؟
دُنیا میں رسمِ وعدہ اب یونہی ادا ہوتی ہے کیا؟
یہ ہے وفا تو وہ جو اِک شے ہے وفا، ہوتی ہے کیا؟


دل میں نہ شرماؤ گی کیا؟
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟


کس کو خبر تھی، آسماں آتش فشاں ہو جائے گا
فردوس زارِ آرزو ، نذرِ خزاں ہو جائے گا
اور یہ گُلِ طلعت نصیب ِ دُشمناں ہو جائے گا


دُشمن کی ہو جاؤ گی کیا؟
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟


تم جس کی قسمت میں ہو وہ فرخندہ اختر کون ہے؟
کہہ دو تمہارے عشق میں وہ میرا ہمسر کون ہے؟
وہ میرا دُشمن لیکن اب ، میرا مُقدّر کون ہے؟


مجھ کو نہ بتلاؤ گی کیا؟
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟


تم سے گِلہ، لیکن نہیں اصلا نہیں ، حاشا نہیں
مجبور ہو ، مجبور سے کچھ جبر کا شکوہ نہیں
لیکن کروں کیا، دل کو بھی تو ضبط کا یارا نہیں


کہہ دو کہ پھر آؤ گی کیا؟
پیاری چلی جاؤ گی کیا؟


اختر شیرانی
 
Top