کاشفی

محفلین
غزل
(ڈاکٹر نسیم نکہت لکھنوی)
پھول بننا کسی گلشن میں مہکتے رہنا
پھر بھی کانٹوں کی نگاہوں میں کھٹکتے رہنا

میری قسمت میں نہ سورج نہ ستارا نہ دِیا
جگنوؤں تم میرے آنگن میں چمکتے رہنا

باندھ کر ہاتھ میرے رسموں کی زنجیروں سے
چوڑیوں سے یہ تقاضہ ہے کھنکتے رہنا

داستانوں سی وہ بھیگی ہوئی بوڑھی آنکھیں
وہ حویلی کے در و بام کو تکتے رہنا

آؤ ہم دونوں اکیلے ہی سفر پہ نکلیں
قافلوں کا مقدر ہے بھٹکتے رہنا

کوئی پہچان نہ لے کیفیتِ تشنہ لبی
وضع داری کا تقاضہ ہے بہکتے رہنا

وہی لمحے مرے اشعار کا سرمایہ ہیں
اُن سے کچھ کہنے کی خواہش میں جھجکتے رہنا
 
Top