کاشفی

محفلین
غزل
پھر قیامت زا ہوا ہلنا لب خاموش کا
پھر نظر آنے لگا موسم جنوں کے جوش کا
پھر مرے سر نے کیا ہے داغ سودا کو کلاہ
پھر لیا کام آبلوں سے پاؤں نے پاپوش کا
شوق عریانی نے پھر کیں پیرہن کی دھجیاں
پھر اُتروایا جنوں نے بوجھ میرے دوش کا
لگ گئی ہے پھر جو ان روزوں میں چُپکی سی مجھے
آگیا ہے دھیان پھر اک کافر خاموش کا
نعرہ زن جا جا کے گلزاروں میں پھرہوتا ہوں میں
برگ گل پر پھر گمان ہونے لگا ہے گوش کا
پھر پڑا رہتا ہوں میں بے ہوش بدمستوں کی طرح
پھر تصور بندھ گیا مجھ کو کسی مے نوش کا
آئے پھر ایام سرما پھر ہوا شوق وصال
چادر تربت سا پھر عالم ہے بالا پوش کا
کوبکو پھر دوڑتا پھرتا ہوں دیوانوں کی طرح
پھر کوئی انداز رم سیکھا ہے میرے ہوش کا
آگئی ہے یاد مجھ کو وصل کی پھر مے کشی
پھر ہوا میرے لہو میں طور مے کے جوش کا
کر گیا ہے پھر کوئی خالی مرے آغوش کو
پھر خیال آیا ہے مجھ کو گور کی آغوش کا
اُس مسیحا نے کیا پھر بام پر آنے کا قصد
پھر جنازہ بار ہوگا دوستوں کے دوش کا
پھر جدائی سے ہوئی منظور روپوشی مجھے
پھر ستاتا ہے نہ ملنا اک بت روپوش کا
ساحل دریا مرے رونے سے پھر آغوش ہے
رونا یاد آتا ہے پھر اک طفل ہم آغوش کا
پھر کھلونے کی طرح بیدم ہے میرا کالبد
کھیلنا یاد آیا پھر اک طفل ہم آغوش کا
پھر ہوا ضبط فغاں دشوار اے ناسخ مجھے
پھر قیامت زا ہوا ہلنا لب خاموش کا
 
Top