پلا مچھلی کی دریائے سندھ میں واپسی…

قدرت نے سات سمندر، کئی دریا اور جھیلیں پیدا کی ہیں جن میں مختلف اقسام کی مچھلیاں رہتی ہیں جس میں وہیل سے لے کر ایک انچ سے چھوٹی مچھلیاں بھی ہیں اور ہر مچھلی کا اپنا رنگ اور ذائقہ ہوتا ہے۔ مچھلی جسے وائٹ میٹ (یعنی سفید گوشت) کہا جاتا ہے، کھانے میں صرف لذیز ہی نہیں بلکہ کئی امراض میں مفید ہے اور اس کے گوشت میں پروٹین کی مقدار آنکھوں اور جلد کے لیے فائدہ مند ہے۔

دریائے سندھ میں جو مچھلی پائی جاتی ہے اس کی لذت بہت اچھی ہوتی ہے کیونکہ اس کا پانی طاقت والا اور میٹھا ہے جب کہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہاں سے ملنے والی مچھلیوں میں نمکیات زیادہ ملتی ہیں۔ مگر سمندر میں رہنے والی ایک مچھلی ایسی بھی ہے جو رہتی تو سمندر میں ہے مگر وہ انڈے دینے کے لیے دریائے سندھ میں آتی ہے کیونکہ اس کے بچے سمندر کے کڑوے نمکین پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے ۔ پلا مچھلی کی کہانی صدیوں پرانی ہے اور اس کا زیادہ تر تعلق سندھ کے حوالے سے رہا ہے۔ یہ مچھلی سندھ کے معاشی استحکام کے حوالے سے بھی اہم رہی ہے کیونکہ پلا مچھلی دوسری مچھلیوں سے کافی مہنگی ملتی ہے اور جب سے دریائے سندھ میں کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہیں پہنچتا ہے تب تک یہ مچھلی دستیاب نہیں ہوتی ہے۔

کئی برس پہلے پلا مچھلی یہاں اتنی بڑی مقدار میں ملتی تھی کہ ہر غریب اور امیر آدمی اسے کھاتا تھا مگر اب حال کچھ سالوں سے یہ رہا ہے کہ سندھ کے علاقوں میں دریائے سندھ میں پانی پورا نہیں ملتا ہے جس کی وجہ سے پلا مچھلی دستیاب نہیں ہوتی کیونکہ جب پانی ڈیلٹا سے ہو کر سمندر میں گرے گا تب وہاں سے پلا الٹی سمت میں دریا کے پانی کے اندر گھس آئے گی اور وہاں سے ہوتی ہوئی کوٹری ڈاؤن اسٹریم تک پہنچ جاتی ہے جہاں ہر تین دن کے اندر وہ انڈے دیتی ہے۔ یہ انڈے دریائے سندھ کے پانی میں پلنا اور بڑھنا شروع ہو تے ہیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے وہ آگے کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں ان کے وزن اور لمبائی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

ایک وقت تھا کہ پلا یہ سفر کرتی ہوئی سکھر تک پہنچ جاتی تھی اور اس وقت اس کا وزن 5 کلو تک ہوجاتا تھا۔ مگر اب یہ صرف جامشورو تک ملتی ہے کیونکہ جب سے وہاں پر پل بنایا گیا ہے اب اس کے گیٹوں سے پلا کراس نہیں کر پاتی ہے۔ اب جیسے پانی کا اخراج زیادہ ہو گیا ہے اور ملک کے اندر سیلاب آ چکا ہے تو پانی کے بہاؤ کو آگے سمندر کی طرف چھوڑنے کے لیے جامشورو کے پل کے دروازے کھول دیے گئے ہیں جہاں سے کچھ پلا مچھلی نکل کر سکھر کی طرف روانہ ہو گئی ہے اور کچھ پلا وہاں بھی مل سکتی ہے اور یہ پلا وزن میں زیادہ ہو گی اور اس کی لمبائی بھی بڑی ہو گی اور اس کو کھانے میں بھی زیادہ مزا آئے گا۔ جب دریائے سندھ میں پانی اس مقدار میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ڈیلٹا سے ہو کر سمندر میں گرے تو پلا مچھلی نے سندھ میں رکنے سے منہ موڑ لیا اور پھر آگے کہیں اپنا مسکن تلاش کیا مگر پھر بھی کچھ سمندر میں ملتی تھی۔ اب تو تین سال سے جیسے ہی دریائے سندھ کے پانی کی خوشبو پلا مچھلی کو ملی تو وہ اس طرف لوٹ آئی ہے۔ دریائے سندھ میں پلا جون، جولائی اور اگست تک رہتی ہے پھر واپس سمندر کی طرف لوٹ جاتی ہے اور باقی جو رہ جاتی ہے وہ بھی شکار ہو جاتی ہے۔

پلا مچھلی بڑی حساس ہوتی ہے اور پھینکنے کے فوراً بعد لمحوں میں مر جاتی ہے۔ جیسے ہی وہ جال سے ٹکرائے گی دم توڑ دے گی اور کبھی کبھی یہ زندہ پکڑی جاتی ہے اور جیسے ہی اسے انسانوں کا ہاتھ لگتا ہے وہ دم توڑ دیتی ہے۔ پلا کو پکڑنے کے لیے ایک خاص قسم کا جال ہوتا ہے جسے بڑی احتیاط کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ پلا مچھلی کو اس وقت تک نہیں پکڑنا چاہیے جب تک وہ پوری بڑھ نہ جائے کیونکہ چھوٹی پلا مچھلی ایک تو وزن میں کم ہوتی ہے اور دوسرا اس میں ابھی دریا کے پانی کا ٹیسٹ آنا باقی ہوتا ہے مگر لالچی اور بھوک سے تنگ آئے ہوئے مچھیرے اپنے اصول بھول کر اس کا شکار کرتے ہیں جس کے دام ان کو ایک ہزار تک مل جاتے ہیں۔ ملاح جو کسی زمانے میں بڑے خوشحال ہوتے تھے مگر اب پانی دریائے سندھ میں نہ ہونے کی وجہ سے بھوکے مر رہے ہیں۔

دریائے سندھ کے کنارے ہزاروں ملاح فیملیز بستی تھیں جو کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور آہستہ آہستہ انھوں نے پنجاب اور بلوچستان کا رخ کر لیا ہے۔ کیونکہ ان کا زیادہ تر گزارہ صرف مچھلی پکڑنے پر ہی ہے۔ اب جیسے ہی ان کو پتہ چلا ہے کہ دریائے سندھ میں سیلاب آیا ہے اور پانی ڈیلٹا سے ہوتا ہوا سمندر میں جا گرے گا تو وہاں سے ہلا مچھلی کود کر دریائے سندھ میں آئے گی پھر وہ اس طرف کا رخ کرتے ہیں کیونکہ پلا مچھلی کے شکار میں انھیں زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ عام مچھلی تین سے چار سو روپے میں بکتی ہے جب کہ پلا ایک ہزار سے دو ہزار روپے فی کلو تک فروخت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ پلا مچھلی ٹنوں کے حساب سے مرتی تھی اور مچھیرے بڑے خوش ہوتے تھے۔

اب جب پلا مچھلی دریائے سندھ میں آ گئی ہے تو مچھیروں نے بڑے جشن منائے ہیں اور اس میں سے ہونے والی آمدنی کو خرچ کرنے کے بڑے بڑے منصوبے بنا لیے ہیں۔ نہ صرف مچھیرے بلکہ لوگوں نے بھی بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے کہ اب وہ دوبارہ پلا مچھلی کی لذت سے اپنے دسترخوان سجائیں گے۔ مگر ایک دکھ کی خبر یہ ہے کہ کچھ لالچی با اثر لوگ نائلون کے جال استعمال کر رہے ہیںجن سے پلا مچھلی کو بڑا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ جال میں چھوٹی مچھلی بھی پھنس جاتی ہے جس کی وجہ سے پلا کی نسل بڑھنے میں دشواری ہو رہی ہے اور اس چھوٹی مچھلی کی وہ لذت نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ مچھلی کوٹری ڈاؤن اسٹریم پر پہنچنے کی وجہ سے وہاں کے مچھیروں کو نقصان ہو رہا ہے اور وہ پھر ایک بار ناانصافی اور بھوک و افلاس کے پھندے میں پھنسے رہیں گے بلو اور گجو جالیں جن پر حکومت کی طرف سے Ban لگا ہوا ہے کیونکہ ان جالوں کی وجہ سے نہ صرف پلا بلکہ دوسری مچھلیوں کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے حکومت سندھ اور حکومت پاکستان اس میں اپنا کردار نبھائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

اب ستمبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور کچھ ہی دنوں میں پانی دریائے سندھ سے کم ہونے لگے گا اور پلا اب اپنی واپسی کا سامان کر رہی ہو گی اس لیے چھوٹی پلا مچھلی کے شکار کو روکا جائے تا کہ اس ماہ کے آخر تک پلا مچھلی جوان ہو جائے۔ پلا مچھلی ایران، بنگلہ دیش، مصر وغیرہ میں بھی ملتی ہے مگر اس میں وہ دریائے سندھ والی لذت نہیں ہے کیونکہ دریائے سندھ میں پہنچ کر پلا اپنا رنگ ، وزن اور لذت تبدیل کر دیتی ہے کیونکہ سمندر کے مقابلے میں دریائے سندھ کا پانی میٹھا ہے۔ جب دریائے سندھ میں پانی نہیں آتا تھا کہ وہ ڈیلٹا میں گرے تو مچھیرے ایران اور بنگلہ دیش کی پلا سندھ لا کر بیچتے تھے۔ یہ پلا کئی دنوں اور مہینوں سے برف میں پڑی رہتی ہے اور پھر پاکستان بھیجی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی لذت اور کم ہو جاتی ہے۔
ربط
http://www.express.pk/story/171079/
 
Top