پسِ آئینہ

ظفری

لائبریرین
آج کل موسم سیاسی پتنگیں اڑانے کے لیئے بہت ہی موافق ہے ۔ اسی مناسبت سے ہر کوئی اپنا نقطہ نظر اپنی جماعت بندی کے حوالے سے پیش کرتا رہتا ہے ۔ مگر ملکی سیاست کو میں کسی اور نظر سے دیکھتا ہوں ۔ ہوسکتا ہے دوست اس تجزیے سے اتفاق نہ کریں ۔ چونکہ میں کسی سیاسی جماعت اور شخصیت کا اسیر نہیں ہوں ۔ لہذا اپنے رائے کو مکمل طور پر غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ یہ تجزیہ بھی انہی کوششوں کی مرہونِ منت ہے ۔

ماضی سے یہ بات ثابت ہے کہ عدلیہ کے بعض فیصلوں کی وجہ سے مارشل لاؤں کا آئینی حیثیت حاصل ہوتی رہی ہے ۔ " عوامی حکومتوں " نے بھی عدلیہ سے وہی کام لیئے جو فوجی حکومتوں‌کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔ موجودہ سیاسی صورتحال نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ بہت پیچیدہ بھی ہے ۔ کچھ ڈانڈوں‌کا سلسلہ اندورنی اور خارجی طور پر دراز نظر آرہا ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سازش کا ہدف پاکستان کا استحکام ،اقتصادیات اور سالمیت ہے ۔ فی الوقت اس سازش کا آغاز ملک میں عدلیہ کی آڑ میں بڑے پیمانے پر ملک میں افراتفری اور انتشار پیدا کرنا ہے ۔ جس سے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کیا جائے ۔ جس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے ۔ اور ملک ایمرجینسی کی گرفت میں ہے ۔ اس وقت ملک کا چاروں طرف سے گھیراؤ ہوچکا ہے ۔ بھارت ، امریکہ کی دوستی کے نعروں کے ساتھ پاکستان کے خلاف اپنا آخری حربہ استعمال کر رہا ہے ۔ اور اس کی دیرینہ آرزو ہے کہ پاکستان کو توڑا جائے یا پھر اقتصادی طور پر اتنا کمزور کیا جائے کہ اس خطے میں سر نہ اٹھا سکے ۔ پاکستان کے موجودہ بحرانوں میں بھارت کی مشکوک کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جو پاکستان معاشرے میں باہمی نفرتوں‌کو پھیلا کر مسلمانوں کا آپس میں لڑانا چاہتے ہیں ۔ اور پاکستان مسلمان ایسے نادان ہیں کہ ان کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں ۔ مگر کچھ ترقی پسند سوچ رکھنے والی پارٹیاں اُن سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں جو عدلیہ کی آزادی کی آڑ میں اس ایجنڈے میں اپنا کردار بخیروخوبی انجام دے رہے ہیں ۔

ویسے بھی ایک عام پاکستان جانتا ہے کہ اس وقت پاکستان کو یکسوئی کے ساتھ اقتصادی ترقی کی طرف گامزن ہونا تھا ۔ کیوں کہ اس خطے میں بھارت سمیت چھوٹے چھوٹے ممالک بھی انتہائی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ۔ مگر پاکستان کی ترقی کا گراف موجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے گرتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ اگر پاکستان کے یہ بڑھتے ہوئے قدم اقتصادی ترقی میں رک گئے تو مستقبل میں اس کے انتہائی سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ اور پھر کوئی بھی حکومت آجائے وہ یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہوگی ۔ جس سے ملک میں غربت اور بیروزگاری میں بے انتہا اضافہ ہوجائے گا ۔ اور جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں گے تو کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کے دکھ بانٹنے نہیں آئے گی ۔ اس قسم کی صورتحال کا نظارہ عوام نے 1977 میں بھٹو مرحوم کے خلاف پی این اے کی تحریک میں دیکھ لیا ہے ۔ اس وقت پی این اے نے عوام کو خوب دلفریب نعروں نوازا تھا کہ ملک میں روزگار آجائے گا ، کرپشن ختم ہوجائے گی ، مہنگائی کا خاتمہ ہوجائے گا اور جہموریت اپنی تمام روایتی خوبیوں کیساتھ رائج ہوجائے گی اور عوام خوب راج کرے گی ۔ مگر پھر کیا ہوا ۔ ؟ پی این اے کی تحریک نے جنرل ضیاء کو اقتدار پر بٹھا دیا ۔ اپنے گیارہ سالہ اقتدار میں انہوں نے سوچوں پر پہرے بٹھا دیئے ، انفرادی آزادی اور خواتین کے حقوق سلب کر لیئے اور پورے معاشرے کا اسلام کے نام پر مسلکوں میں تقسیم کردیا ۔ اس وقت کے صالحین نے ضیاء کے ہاتھ مضبوط کیئے ۔ اور ان تمام افراد کو غیر موثر کر دیا جو ضیاء کی پالیسوں کے خلاف تھے ۔ آج کی صورتحال کو دیکھیں کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے ۔ وہی عناصر جنہوں نے اسلام اور جہموریت کے نام پر ضیاءالحق کے ہاتھوں حکومت دی تھی اب وہی عدلیہ کی آزادی کی آڑ میں ایک بار پھر محترک ہوگئے ہیں ۔ اور عوام کو سڑکوں پر لا رہے ہیں ۔ لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ استعفیں دیں ۔ ہم آکر بڑے عہدے دیں گے ۔ یہ حکومت جانے والی ہے ۔ صحافیوں کو کہا جارہا ہے وہ بھی اس تحریک میں حصہ لیں ۔ حکومت جائے گی یا نہیں جائے گی ۔ اس پر بحث مقصود نہیں ۔ ہاں مگر یہ ضرور ہوگا کہ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔ ( جس کا آغاز بھی ہوچکا ہے ) ۔ اور اس سے ملک پھر کہاں کھڑا ہوجائے گا اس کا قیاس کرنا شاید اتنا مشکل بھی نہیں ہے ۔
 

امید

محفلین
ظفری صاحب۔ آپ کی باتیں صحیح ہوں گی مگر میرا خیال ہے اس وقت بات ہے آمریت کی اور جمہوریت کی۔ اس وجہ سے کہ جمہوریت کے لیے چلا‎ئی گئی‎ تحریک کا فائدہ کون اٹھائے گا ہم جمہوریت اور آزای ء اظہار رائے کے لیے جدوجہد ہی نہ کریں غلط ہو گا،
 

ظفری

لائبریرین
ظفری صاحب۔ آپ کی باتیں صحیح ہوں گی مگر میرا خیال ہے اس وقت بات ہے آمریت کی اور جمہوریت کی۔ اس وجہ سے کہ جمہوریت کے لیے چلا‎ئی گئی‎ تحریک کا فائدہ کون اٹھائے گا ہم جمہوریت اور آزای ء اظہار رائے کے لیے جدوجہد ہی نہ کریں غلط ہو گا،

آپ یا کوئی اور مجھے اس بات پر قائل کردے کہ ان تحریکوں سے ایک " مثالی جہموریت " کا ظہور وقوع پذیر ہوگا ، جس سے ملک کے سیاسی نظام میں جوہری تبدیلی واقع ہوگی تو میں آپ سب کا ساتھ ان تحریکوں کے حوالے سے دینے کے لیئے تیار ہوں ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ظفری، یہ ثابت کرنا تو مشکل ہوگا کہ ان تحریکوں سے مثالی جمہوریت وجود میں آئے گی لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ نظام کا تسلسل محض ہمیں تباہی کی طرف لیجا رہا ہے۔ اقتصادی ترقی کے لیے ایک مستحکم سیاسی بیس موجود ہونا ضروری ہے۔ میرے خیال میں جنرل مشرف کی حکومت کی اگر کوئی legitimacy تھی تو وہ اس کے اقتدار کے پہلے تین سال تھے۔ اس کے بعد اس نے صدارت پر قابض رہنے کے لیے جس طرح کا ریفرینڈم کروایا اور بعد میں ق لیگ کے لوٹوں کو قوم پر مسلط کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر اس وقت جنرل مشرف وردی اتارتا اور صدارتی انتخاب لڑتا تو اس کے جیتنے کے امکانات بھی تھے کیونکہ اس وقت تک اس کی کسی حد تک عوامی حمایت موجود تھی۔ اور اس طرح ملک میں جمہوری روایات کو فروغ ملنے کا موقع بھی ملتا۔

ایک ایسی اقتصادی ترقی، جو ملک کے استحکام میں کردار نہ ادا کر سکے، بے فائدہ ہے۔ ان اقتصادی پالیسیوں کو تحفظ بھی محض اسی آمرانہ دور میں حاصل ہوتا ہے۔ ایوب خان کے سنہری عشرہ اقتدار کا کیا انجام ہوا؟ ملک ایک خونریزی کے بعد دو لخت ہو گیا۔

شخصیت پرستی اور سیاسی جماعت کی اسیری سے متعلق آپ کی بات بالکل درست ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہی عناصر متحرک ہو رہے ہیں جو پہلے بھی کئی مرتبہ قوم کو دھوکا دے چکے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
شخصیت پرستی اور سیاسی جماعت کی اسیری سے متعلق آپ کی بات بالکل درست ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہی عناصر متحرک ہو رہے ہیں جو پہلے بھی کئی مرتبہ قوم کو دھوکا دے چکے ہیں۔
موجودہ حالات میں ماضی کی جو غلطی دہرائی جارہی ہے ۔ آپ نے اس کو ایک واضع اور مختصر سطر میں بیان کردیا ۔ میری ساری تہمید اور مضامین کا ماخذ صرف اس بات پر مرتکز تھا کہ اگر سول سوسائٹی ایک بار پھر بیدار ہوگئی ہے تو کیوں نہ اس بار چہرے بدلنے کے بجائے نظام بدلنے کے لیئے جہدوجہد کی جائے ۔ ان تحریکوں اور جہدوجہد کا رخ صحیح سمت موڑا جائے ۔ جس کی منزل سرمایہ دار ، جاگیر دار ، فوج اور مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ کسی ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہو ۔ جو ملک کے اصل مسائل کی نہ صرف جڑ کو سمجھتا ہو بلکہ اس میں ان کو سلجھانے کی بھی بھرپور صلاحیت موجود ہو ۔ یہ چار گروہوں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم کو سیاسی تاثر دینے کے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔ ان سب کو رد کر کے اپنا کوئی مخلص لیڈر چنا جائے ۔ جو ماضی سے قطعی مخلتف ہو ۔ میری ساری بھاگ دوڑ بس صرف اسی نقطعے پر مرتکز ہے ۔
 

خرم

محفلین
اور ظفری یہی بات میں بھی دُہراتا ہوں۔ ایک مخلص لیڈر کے بغیر یہ قوم دائروں کے اس سفر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لیڈر آئے کہاں سے؟
 

ظفری

لائبریرین
اور ظفری یہی بات میں بھی دُہراتا ہوں۔ ایک مخلص لیڈر کے بغیر یہ قوم دائروں کے اس سفر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لیڈر آئے کہاں سے؟
ہم سارے کھوٹے سکے آزما چکے ۔ کوئی بھی دردِ آشنا نہ نکلا ۔ موجودہ صورتحال میں جہاں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں ( میڈیا اور سول سوسائٹی کی بیداری " وکلاء" ) ۔ کیونکہ ان تبدیلوں کی مدد سے عمران خان کو ایک موقع دیں ۔ ؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
ظفری، عمران خان کے متعلق بہت سے لوگ حسن ظن رکھتے ہیں۔ بہت سے کالم نویس عمران خان کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہی کالم نویس عمران خان کی سیاسی ناکامیوں پر افسوس بھی کرتے ہیں۔ عمران خان کو اگر سیاست میں کوئی اہم کردار ادا کرنا ہے تو اسے اپنی سیاست کا انداز بدلنا ہوگا۔ ملک کی ایلیٹ کلاس میں اس کے بخوبی روابط ہیں۔ سیاست میں کامیابی کے لیے اسے مڈل کلاس میں اپنے قدم جمانے ہوں گے۔ میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ عمران خان کو جماعت اسلامی کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کرنا چاہیے۔ حالیہ واقعات کے بعد میرے خیالات تبدیل ہو گئے ہیں۔
 

خرم

محفلین
اللہ کرے عمران کے متعلق آپ لوگوں کے خیالات درست ہوں۔ مجھے تو وہ ابھی بھی ایک آمر ہی لگتا ہے۔ ہاں اگر وہ اپنی جماعت میں انتخابات کرواتا ہے اور ایک جمہوری مزاج کا حامل ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے پھر میں بھی اپنے خیالات کو تبدیلی پر مائل پاؤں گا۔
 

ظفری

لائبریرین
آپی ! آپ نے یہ دھاگہ بھی تلاش کرلیا ۔:)
خود ہی دیکھیں اتنے سال ہوگئے مگر سب کچھ وہی ہے جو سالوں پہلے تھا کچھ نہیں بدلا۔ میں اب بھی اپنی پرانی پوسٹیں آج کی سیاسی پس منظر میں دوبارہ پوسٹ کردوں تو وہ اب بھی اطلاق کے قابل ہونگیں ۔ :idontknow:
 

سیما علی

لائبریرین
آپی ! آپ نے یہ دھاگہ بھی تلاش کرلیا ۔:)
خود ہی دیکھیں اتنے سال ہوگئے مگر سب کچھ وہی ہے جو سالوں پہلے تھا کچھ نہیں بدلا۔ میں اب بھی اپنی پرانی پوسٹیں آج کی سیاسی پس منظر میں دوبارہ پوسٹ کردوں تو وہ اب بھی اطلاق کے قابل ہونگیں ۔ :idontknow:
پڑھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ہماری سوچ کتنی ایک جیسی ہے۔بالکل آج کےسیاسی پس منظر میں ہر بات پوری اُتر تی ہے۔کچھ بھی نہیں بدلا:crying3::crying3:
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہم سارے کھوٹے سکے آزما چکے ۔ کوئی بھی دردِ آشنا نہ نکلا ۔ موجودہ صورتحال میں جہاں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں ( میڈیا اور سول سوسائٹی کی بیداری " وکلاء" ) ۔ کیونکہ ان تبدیلوں کی مدد سے عمران خان کو ایک موقع دیں ۔ ؟
بیداری کا عالم اب بھی وہی ہے جیسے سنہ 1992 میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی اخبار دی نیوز کی ایڈیٹر تھیں۔ ان کی ادارت میں مقامی اخبار میں جب احتساب سے متعلق ایک طنزیہ نظم شائع کی گئی جس میں ذو معنی انداز میں وزیراعظم کی ہنسی اڑائی گئی تھی تو اخبار کی انتظامیہ کے خلاف بھی نقضِ امن کا مقدمہ درج کیا گیا!!!اب ارشد شریف !ہیں ! صابر شاکر ہیں اور عمران ریاض ہیں ؀
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
آپی ! آپ نے یہ دھاگہ بھی تلاش کرلیا ۔:)
خود ہی دیکھیں اتنے سال ہوگئے مگر سب کچھ وہی ہے جو سالوں پہلے تھا کچھ نہیں بدلا۔ میں اب بھی اپنی پرانی پوسٹیں آج کی سیاسی پس منظر میں دوبارہ پوسٹ کردوں تو وہ اب بھی اطلاق کے قابل ہونگیں ۔ :idontknow:
دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے
بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے
 
Top