پسندیدہ غزل

سارہ خان

محفلین
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے


جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے


لگ کے ساحل سے جوبہتا ہے اُسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے


جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے


شہد جینے کا مِلا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کیلئے دِل نہیں تھوڑا کرتے


جمع ہم ہوتے ہیں ، تقیسم بھی ہوجاتے ہیں
ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جورا کرتے


جاکے کہسار سے سرمارو کہ آواز تو ہو
خستہ دِیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے


(گلزار)
 

علمدار

محفلین
وہ تبسم وہ تکلم


تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
میرے تخیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے
یوں اچانک تیرے عارض کا خیال آتا ہے
جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے
تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک
خواب بن بن کے میرے ذہن میں لہراتی ہے
رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے
تیرے انفاس، ترے جسم کی آنچ آتی ہے
میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کر دوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے
رات کے خواب اُجالے میں بیاں تو کر دوں
ان حسیں خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے
تیری سانسوں کی تھکن تیری نگاہوں کا سکوت
درحقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم، وب تکلم تیری عادت ہی نہ ہو
سوچتا ہوں کہ تجھے پا کے میں جس سوچ میں ہوں
پہلے اس سوچ کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں
میں تیرے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہوں
تیرے الطاف کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں
کہیں ایسا نہ ہو پاو¿ں میرے تھرا جائیں
اور تیری مرمریں بانہوں کا سہارا نہ ملے
اشک بہتے رہیں خاموش سیاہ راتوں میں
اور تیرے ریشمی آنچل کا کنارہ نہ ملے


ساحر لدھیانوی
 

ساجداقبال

محفلین
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا

دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پوچھ
ای۔۔۔۔۔۔مان کی تو یہ ہے کہ ای۔۔۔۔۔۔۔۔مان تو گیا

افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا

گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

بزمِ عدو میں صورت پروانہ دل میرا
گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا

ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
 

عمر سیف

محفلین
میں شام یادوں کے جنگلوں میں گذارتا ہوں‘ کہ کچھ لکھوں گا

یہ شہر سارا ہی سو چکا ہے میں جاگتا ہوں کہ کچھ لکھوں گا

بہار رُت کے وہ خواب سارے جو میری پلکوں پہ آ سجے تھے!
وہ خواب آنکھوں میں جل چکے ہیں میں جل رہا ہوں کہ کچھ لکھوں گا

میں پچھلے موسم کی بارشوں کو پھر اپنی آنکھوں میں لا رہا ہوں!
کہ اب کے ساون کی رُت میں‘ میں بھی یہ سوچتا ہوں کہ کچھ لکھوں گا

عجیب رُت ہے جدائیوں کی‘ عذاب دن ہیں عذاب راتیں
میں چند مہمل سے لفظ لکھ کر یہ سوچتا ہوں کہ کچھ لکھوں گا

میں لفظ پلکوں سے چن رہا ہوں‘ میں خواب کاغذ پہ بُن رہا ہوں
میں تیری آہٹ بھی سن رہا ہوں میں جانتا ہوں کہ کچھ لکھوں گا

وہ سارے رستے کہ جن پہ ہم تم چلے تھے چاہت کے سنگ عاطف
میں اب جو اُن پر کبھی گیا تو یہ جانتا ہوں کہ کچھ لکھوں گا​
[align=left:50a8a4909a]عاطف سعید[/align:50a8a4909a]
 

سارہ خان

محفلین
کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

برف کے پگلھنے میں دیر کِتنی لگتی ہے


اُس نے ہنس کر دیکھا تو مُسکرادیے ہم بھی

ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے


بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہوگی

بات کے مُکرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے


زعم کِتنا کرتے ہو اِک چراغ پر اپنے

اور ہَوا کے چلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

نوشی گیلانی
 

سارہ خان

محفلین

عشق ایسا عجیب دریا ہے
جو بِنا ساحلوں کے بہتا ہے


ہیں غنیمت یہ چار لمحے
پھر نہ ہم ہیں، نہ یہ تماشا ہے


زندگی اِک دُکان کھلونوں کی
وقت، بگڑا ہوا سا بچّہ ہے


اے سرابوں میں گُھومنے والے!
دل کے اندر بھی ایک رستہ ہے


اِس بھری کائنات کے ہوتے
آدمی، کسی قدر، اکیلا ہے!!


آئنے میں جو عکس ہے امجد
کیوں کِسی دُوسرے کا لگتا ہے!
(امجد اسلام امجد )

 

عمر سیف

محفلین
زنگ برتن کو لگا، کپڑے پُرانے ہو گئے
لڑکیوں کو اپنے گھر بیٹھے زمانے ہو گئے

وہ بھی اب کہتی ہے ماں تیری پسند اچھی نہیں
میرے بچّے باپ سے بڑھ کر سیانے ہو گئے


کس طرح اے خواب تیری ستر پوشی میں کروں
ختم میری زندگی کے تانے بانے ہو گئے

چائے کی ٹیبل پہ بھی یکجا نہیں ہوتے ہیں ہم
سوچتی ہوں ایک گھر کے کتنے خانے ہو گئے

میں قمر اس شخص کے لفظوں میں گُم ہوں آج بھی
بات بھی جس سے کئے کتنے زمانے ہو گئے

[align=left:8547ae8362]ریحانہ قمر[/align:8547ae8362]
 

فرحت کیانی

لائبریرین
[align=justify:5eba3735dd]اُسے اپنی فردا کی فکر تھی ، وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا

میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا

کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ تو خود سراپا سوال تھا

وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چُپ نے رُلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا[/align:5eba3735dd]
 

سارہ خان

محفلین
فرحت کیانی نے کہا:
[align=justify:6962ea00e7]اُسے اپنی فردا کی فکر تھی ، وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا

میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا

کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ تو خود سراپا سوال تھا

وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چُپ نے رُلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا[/align:6962ea00e7]
بہت خوب۔۔
 

عمر سیف

محفلین
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا

تیرا در چھوڑ کہ میں اور کدھر جاؤں گا
گھر میں گِر جاؤں گا، صحرا میں بکھر جاؤں گا

تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا

اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایہِ اَبر کی مانند گزر جاؤں گا

تیرا پیمانِ وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا

چارہ سازوں سے الگ ہے میرا میعار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا

اب تو خورشید کو ڈوبے ہوئے صدیاں گزریں
اب اُسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاؤں گا

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاؤں گا مگر صُبح تو کر جاؤں گا​
[align=left:04df8561ce]احمد ندیم قاسمی
[/align:04df8561ce]
 

عیشل

محفلین
رنگ اترنے میں بہت دیر لگی
دل ٹھہرنے میں بہت دیر لگی
تیری آنکھوں کی طرح گہرا تھا
زخم بھرنے میں بہت دیر لگی
بات کرنا تھی ذرا سی تجھ سے
بات کرنے میں بہت دیر لگی
کٹ گئی رات تیرے خوابوں میں
دن گذرنے میں بہت دیر لگی
کب سمیٹا تھا کسی نے مجھ کو
کب بکھرنے میں بہت دیر لگی
زندگی گذری ہے پل میں میری
سعد مرنے میں بہت دیر لگی

(سعد اللہ شاہ)
 

حجاب

محفلین
ملیں پھر آ کے اسی موڑ پر دعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر دعا کرنا
دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا
چراغِ جاں پہ اس آندھی میں خیریت گزرے
کوئی اُمید نہیں ہے مگر دعا کرنا
تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا
مسافتوں میں نہ آزار جی کو لگ جائے
مزاج داں نہ ملیں ہم سفر دعا کرنا
دکھوں کی دھوپ میں دامن کُشا ملیں سائے
ہرے رہیں یہ طب کے شجر دعا کرنا
نشاطِ قرب میں آئی ہے ایسی نیند مجھے
کُھلے نہ آنکھ میری عمر بھر دعا کرنا
ملیں پھر آکے اسی موڑ پر دعا کرنا
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر دعا کرنا( اعتبار ساجد )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

فرحت کیانی

لائبریرین
[align=justify:e4cbcb150b]آنسوؤں کے قطرے قطرے میں بکھر کر دیکھنا
درد کی موجوں کے ساحل پہ اتر کر دیکھنا

دیکھنا آنکھوں کی وحشت رات کے پچھلے پہر
ہجر کی صدیوں کے صحرا سے گزر کر دیکھنا

شام کا تنہا اکیلے چاند ستاروں سے ملاپ
اور ہماری آنکھ کا شب بھر ٹھہر کر دیکھنا

فرق ہے اک دیکھنے میں، تم تھے ساحل پر کھڑے
اور ہمارا ڈوبتے لمحے ابھر کر دیکھنا!!!

تُو بھی تو سرہانے کھڑا دیکھے گا چُپ گھنٹوں ہمیں
سو ، ہمارا شوق ہے اِک بار مر کر دیکھنا!!!!

۔۔۔۔۔نامعلوم[/align:e4cbcb150b]
 

عیشل

محفلین
دل کہ تھا درد آشنا تنہا
جل بجھا اک چراغ تنہا

تجھ سے کیا کیا ہمیں امیدیں تھیں
تُو بھی آئی ہے کیا صبا تنہا

رات کی بیکراں خموشی میں
گیت بُنتی رہی ہوا تنہا

یہ تو اپنا شعار ہے ورنہ
کون کرتا ہے یوں وفا تنہا

دشت سا دشتِ تنہائی ہے رسا
پھِر رہا ہوں غبار سا تنہا

(رسا چغتائی)
 

سارہ خان

محفلین
فرحت کیانی نے کہا:
[align=justify:a731ef545e]آنسوؤں کے قطرے قطرے میں بکھر کر دیکھنا
درد کی موجوں کے ساحل پہ اتر کر دیکھنا

دیکھنا آنکھوں کی وحشت رات کے پچھلے پہر
ہجر کی صدیوں کے صحرا سے گزر کر دیکھنا

شام کا تنہا اکیلے چاند ستاروں سے ملاپ
اور ہماری آنکھ کا شب بھر ٹھہر کر دیکھنا

فرق ہے اک دیکھنے میں، تم تھے ساحل پر کھڑے
اور ہمارا ڈوبتے لمحے ابھر کر دیکھنا!!!

تُو بھی تو سرہانے کھڑا دیکھے گا چُپ گھنٹوں ہمیں
سو ، ہمارا شوق ہے اِک بار مر کر دیکھنا!!!!

۔۔۔۔۔نامعلوم[/align:a731ef545e]

فرحت سسٹر آپ کا انتخاب ہر دفعہ لا جواب ہوتا ہے ۔۔۔ :)
 

عمر سیف

محفلین
قصہِ غم سنانے آئے ہیں
اپنی بگڑی بنانے آئے ہیں

ان کے جانے سے دل پہ جو گزری ہے
خود زباں سے سُنانے آئے ہیں

ہائ چُھپ چھُپ کے وہ ملاقاتیں
یادِ ماضی بُھلانے آئے ہیں

فتنے اُلفت کے جاگ اُٹھے ہیں
ہم انہیں پھر سُلانے آئے ہیں

اُن سے کہہ دو کہ بام پر آئیں
آج غالب منانے آئے ہیں

[align=left:4ca61f66c9]" ڈاکٹر منیر احمد غالب "[/align:4ca61f66c9]
 
Top