بہزاد لکھنوی پریشاں ہوں اور قلب گھبرا رہا ہے - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
پریشاں ہوں اور قلب گھبرا رہا ہے
مجھے آج پھر کوئی یاد آرہا ہے

دُہائی ہے حسنِ بتاں کی دُہائی
مرا قلبِ مضطر مٹا جارہا ہے

مرے دستِ الفت میں ہے ان کا دامن
زمانے کا دامن چھُٹا جارہا ہے

ارے ہوش رخصت ارے صبر رخصت
تصور میں کوئی چلا آرہا ہے

وہی اشک ہے مایہء زندگانی
جو آنکھوں سے آنسو گرا جارہا ہے

تڑپ اے مرے قلبِ بیتاب و گریاں
میں شکوہ کروں کیوں وہ تڑپا رہا ہے

مرا قلبِ مضطر نہیں میرے بس میں
مجھے کیا خبر ہے کدھر جارہا ہے

خبر لے خبر لے نگاہِ محبت
کوئی غم کے ہاتھوں مٹا جارہا ہے

محبت کے بہزاد صدقے دل و جاں
محبت میں دل کو مزا آرہا ہے

 
Top