پرویز مشرف پر فرد جرم عائد ہونے کا منظر

جنرل صاحب، میں متعصب نہیں ہوں‘
ہلکے بھورے رنگ کی شلوار قمیض اور گہرے نیلے رنگ کا کوٹ تن زیب کیے ہوئے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف غداری کے مقدمے کی سماعت کے دوران مقامی وقت کے مطابق نو بج کر 37 منٹ پر خصوصی عدالت میں پہنچے تو بینچ میں شامل جج صاحبان کمرۂ عدالت میں موجود نہ تھے۔
دس منٹ بعد ججوں کی آمد ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یاور علی نے پرویز مشرف کو ایک نظر دیکھا ضرور لیکن ایسے ظاہر کیا کہ جیسے اُنھیں معلوم نہیں کہ ملزم کمرۂ عدالت میں ہے یا نہیں۔
ججوں کی آمد پر عدالت میں موجود دیگر افراد کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف بھی کھڑے ہوئے لیکن اُنھوں نے عدالت کو سلیوٹ نہیں کیا جس طرح اُنھوں نے گُذشتہ حاضری کے موقعے پر کیا تھا۔
پرویز مشرف کے نئے وکیل فروغ نسیم نے اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ اُن کے موکل پر فرد جُرم عائد نہ ہو لیکن جب عدالت نے اسے تسلیم نہیں کیا تو پھر سابق فوجی صدر کے وکیل نے موقف پیش کیا کہ بےشک عدالت اُن کے موکل پر فرد جُرم عائد کر دے لیکن چونکہ پرویز مشرف کی والدہ بیمار ہیں اسے لیے اُن کی تیمار داری کے لیے اُنھیں باہر جانے دیں۔
خصوصی عدالت جب پرویز مشرف پر اس مقدمے میں فرد جُرم عائد کرنے لگی تو عدالت نے براہِ راست پرویز مشرف سے نہیں کہا کہ وہ اپنی سیٹ پر کھڑے ہو جائیں بلکہ بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے ملزم کے وکیل سے کہا کہ چونکہ قانونی تقاضا ہے کہ فرد جُرم عائد کرتے وقت ملزم کو اپنی نشست سے کھڑا ہونا پڑتا ہے اس لیے وہ پرویز مشرف سے کہیں کہ وہ کھڑے ہو جائیں۔
سابق فوجی صدر اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے جس کے بعد بینچ میں موجود جج جسٹس طاہرہ صفدر نے فرد جُرم پڑھ کر سُنائی اور پرویز مشرف نے صحت جُرم سے انکار کر دیا۔
عدالت نے پرویز مشرف سے اس فرد جُرم پر اُن کے دستخط بھی لیے اور اُنھیں اپنے دفاع میں بولنے کی اجازت دے دی۔
’تعیناتی میرٹ پر کی‘
سابق فوجی صدر نے کہا کہ اُن کے دور میں اعلی عدالتوں میں جو جج تعینات کیے گئے تھے اُس میں میرٹ کا خیال رکھا گیا تھا جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب مسکرا دیے کیونکہ اُن کی سندھ ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی پرویز مشرف نے ہی کی تھی۔
سابق صدر نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں پیش نہ ہونا اُن کی انا کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سکیورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ اُن کے صحت کا بھی مسئلہ تھا جس کی وجہ سے وہ عدالت نہیں آ سکے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے خلاف جو مقدمہ ہے وہ انگریزی میں ’ہائی ٹریزن‘ تو کسی حد تک ٹھیک لگتا ہے لیکن اس کا اردو ترجمہ یعنی ’غداری‘ کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے نو سال تک پاکستانی فوج کی کمان کی ہے اور غدار تو اُس شخص کو کہا جاسکتا ہے جس نے دشمن کو کوئی راز دیے ہوں یا اُن کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوں۔
سابق فوجی صدر نے کہا غدار اُن کو کہا جائے جنہوں نے قومی خزانے کو لوٹا ہے۔
اپنی تقریر کے آخر میں سابق فوجی صدر نے کہا کہ اُن کے دور میں اعلیٰ عدالتوں میں جو جج تعینات کیے گئے تھے اُس میں میرٹ کا خیال رکھا گیا تھا جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب مسکرا دیے کیونکہ اُن کی سندھ ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی پرویز مشرف نے ہی کی تھی۔
سابق فوجی صدر تمام نکات کاغذ پر لکھ کر لائے تھے اور عدالت اُن کے بیان کو ایسے انہماک سے سُن رہی تھی جیسے اُنھوں نے اس طرح کی باتیں پہلے نہ سُنی ہوں۔ عدالت نے پرویز مشرف کے بیان کو عدالتی ریکارڈ کا بھی حصہ بنایا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران پرویز مشرف اپنی نشست پر ساکت بیٹھے رہے۔ اس دوران صرف ان کے انگوٹھے حرکت میں تھے جنھیں وہ مسلسل اپنے بند ہاتھوں کے اوپر مل رہے تھے۔ بعدازاں جب عدالت نے اُنھیں بولنے کی اجازت دی تو پہلے تو اُنھوں نے دھیمی آواز میں بولنا شروع کیا اور پھر وہ اپنے ردھم میں آگئے۔ سابق صدر کی تقریر سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اُنھیں اس مقدمے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ لفظ غداری پر اعتراض ہے جو کہ اس مقدمے کی سماعتوں کے دوران بارہا لیا جاتا رہا۔
مشرف کو کبھی غدار نہیں کہا
جب اس مقدمے کی سماعت ختم ہوئی تو چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ چل کر ملزم پرویز مشرف کے پاس گئے تو اُنھیں بتایا کہ وہ اس مقدمے میں اُن کے ضمانتی میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی کے کلاس فیلو ہیں جس پر پرویز مشرف نے کہا کہ کیا وہ اس لیے اُن کے خلاف اس مقدمے میں چیف پراسیکیوٹر بنے ہیں جس پر اکرم شیخ نے پرویز مشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے دل میں اُن کے لیے بےحد احترام ہے اور اُن کے لیے کسی طور پر بھی تعصبانہ رویہ نہیں رکھتے۔
پرویز مشرف کی تقریر ختم ہونے کے بعد اس مقدمے کے چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ اُنھیں پرویز مشرف کی وفاداری پر کوئی شک نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہاکہ استغاثہ کی طرف سے پرویز مشرف جو کہ سابق آرمی چیف بھی رہے ہیں، انھیں کبھی غدار نہیں کہا گیا بلکہ ملز م کے وکلا اس کو غداری کا مقدمہ کہہ رہے ہیں۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے غداری کا نہیں بلکہ آئین شکنی کا مقدمہ ہے۔
بات صرف یہی پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ جب اس مقدمے کی سماعت ختم ہوئی تو چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ چل کر ملزم پرویز مشرف کے پاس گئے تو اُنھیں بتایا کہ وہ اس مقدمے میں اُن کے ضمانتی میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی کے کلاس فیلو ہیں جس پر پرویز مشرف نے کہا کہ کیا وہ اس لیے اُن کے خلاف اس مقدمے میں چیف پراسیکیوٹر بنے ہیں؟ اس پر اکرم شیخ نے پرویز مشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے دل میں اُن کے لیے بےحد احترام ہے اور اُن کے لیے کسی طور پر بھی تعصبانہ رویہ نہیں رکھتے۔
دونوں جانب سے معنی خیز مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا جس کے بعد پرویز مشرف سخت سیکیورٹی کے حصار میں کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
مآخذ
 

شمشاد

لائبریرین
اب صاحب کو باہر بھجوانا بھی تو ضروری ہے ناں۔

یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے۔ خاصا گھسیٹ لیا۔ اب جان چھوڑ دیں گے۔
 

x boy

محفلین
اب کوئی جنرل ایسا کام نہیں کریگا، باہر جانے کے بعد پاکستان کبھی نہیں آئے گا، جیسے شوکت عزیر،
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی زندگی میں یہ ایک بہادر اور نڈر آدمی تھا لیکن سیاست کے خارزار میں ایکدم بزدل ثابت ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سُننے میں آیا ہے کہ ایک جہاز، غیر معمول کی پرواز سے، دبئی سے اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔
 

x boy

محفلین
میں تو انتظار کررہا ہوں جیسے ہی وہ آئے دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد کیا کہانی ہوتی ہے، اب سوئزر لینڈ سوگیا
 
آپ اختلاف کا حق رکھتے ہیں لیکن انڈیا کے سامنے جس طرح یہ ڈٹ کر سامنے آیا تھا، آج تک کسی حکمران کی جرات نہیں ہوئی۔
کاش واقعی ایسا ہوا ہوتا !
لیکن ہوا یہ کہ حکمران بننے کے بعد اسنے کشمیر پر پاکستان کا موقف تبدیل کر دیا ۔
بھارت کے ساتھ ڈٹنے کا کریڈٹ آپ ایوب خان اور جنرل ضیاء کو دے سکتے ہیں لیکن مشرف کو نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
میری رائے میں پرویز مشرف نے کشمیر پر صحیح سٹینڈ لیا تھا اور قریب قریب معائدہ بھی طے پا گیا تھا۔ پھر عین وقت پر انڈیا اپنے موقف سے پھر گیا تھا۔
 
Top