پرواز (پرندے کیوں اڑتے ہیں؟)

تفسیر

محفلین
.
پرواز - پرندے کیوں اُڑتے ہیں
ایک مختصر افسانہ
سید تفسیر احمد


.ماں ، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ "۔ ساجدہ نے ماں سے سوال کیا۔

ساجدہ کی ماں نےصحن میں جھاڑو دیتے ہو ے جواب دیا"۔ بیٹی مجھ بے پڑھی لکھی کو کیا پتہ ہے ان باتوں کا۔ جب اسکول جاؤ تو استانی جی سے پوچھنا۔"

" اچھا ماں ، میں باہر کھیلوں گی" اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھول کر۔ ساجدہ گلی میں آگی۔

گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ ہرطرف غلاظت کےڈھیر تھے۔ گلی کےدرمیان ایک گندے پانی کو نالا بہہ رہا تھا۔دو دروازے دور۔ اسکی دوست نجمہ اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھی۔ ساجدہ بھی نجمہ کے برابر بیٹھ گی۔

" تم نے اپنی ماں سے پوچھا؟" نجمہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
" ہاں" ۔ساجدہ نے بے دلی سے کہا۔
" تو" ۔ نجمہ نے زور سے پوچھا۔
"ماں کو بھی نہیں پتہ وہ کہتی ہے استانی جی سے پوچھو"۔ ساجدہ بولی۔
" نا ، بابا میں تو کبھی نہ پوچھوں" ۔نجمہ نے کہا۔
" تم پوچھنا "
" اچھا "۔ ساجدہ نے کچھ سوچتے ہوے کہا۔"چلو کھیلیں"

٭٭٭

سخت گرمی تھی ۔ تمام بچے برگد کے درخت کی نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گے۔استانی نےدوسری جماعت کی کتاب کھولی اور کہا۔" آج ہم اپنے ملک کے بارے میں پڑھیں گے۔ صفحہ دس پر کتاب کھولو"

" ہمارے ملک کے دو حصہ ہیں۔ایک حصہ مغرب میں ہے اور دوسرا مشرق میں ۔ ہم مشرقی حصہ میں رہتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہیں۔ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی اور بہن ہوتےہیں۔وہ ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور سب سے محبت کرتے ھیں "۔
" میرا تو کوئی بھائی نہیں۔ کیا بھائی بہنوں سے پیار کرتے ہیں؟۔ کیا اگر میرا کوئی بھائی ہوتا تو وہ مجھے نئے کپڑے لاکر دیتا؟ میں نے کبھی برفی نہیں کھائی کیا وہ مجھے مٹھائی لا کر دیتا "۔نجمہ نے اداس ہو کراستانی سے پوچھا۔
سبق کے بعد ساجدہ اُستانی جی کے پاس گی۔ اُستانی جی، ساجدہ نے ادب سے کہا۔
" کیا بات ہے ساجدہ ؟ "
" کیا میں ایک سوال پوچھ ہوں؟ " ساجدہ ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
" پوچھو "۔
" استانی جی، پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ "
" یہ تو بہت اچھا سوال ہے ۔ کل میں تم سب کوایک ساتھ کلاس میں بتاؤں گی"۔ استانی نے جواب دیا۔
چلو جاؤ ۔ اندھیرا ہو رہا ہے۔ تمہاری ماں پریشان ہو رہی ہوگی"۔

٭٭٭

" ساجدہ ، تم آج سے باہر مت کھیلنا۔ لڑائی ہو رہی ہے۔ یہاں مغربی حصہ کی فوجیں آئی ہوي ہیں اور ہمارے سپاہی ان سے لڑرے ہیں" ۔ ماں نے ساجدہ کے بالوں میں مانگ ڈالتے ہوئے کہا۔
" ماں وہ تو ہمارے بھائی ہیں نا۔ ہم ان سے کیوں لڑتے ہیں۔استانی جی کہتی ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں۔ میں سپاہیوں سے کہوں گی کہ ان سے نہ لڑیں "۔

٭٭٭
زبرد ست بارش ہوری تھی۔ جھونپڑی میں کوئی جگہ خشک نہ تھی۔پانی ٹخنوں تک آچکاتھا۔ بجلی بار بار چمک رہی تھی۔ ساجدہ خوف سے ماں سے لپٹی ہوئی تھی۔ باہر سے شور وغل کی آوازیں آرہی تھیں۔ جھونپڑی کا دروازہ کھلا اور بجلی کی چمک میں ساجدہ نے چارسائے دیکھے۔ وہ ایک ایسی زبان بول رہے تھے جیسے ساجدہ نے کبھی نہیں سننا تھا۔ یہ میرے بھائی ہیں۔ ساجدہ کا دل کرا کہ وہ دوڑ کر اپنے بھائیوں سے لپٹ جائے وہ اسکو ملنے آئے ہیں ۔ ماں نے ساجدہ پر اپنی گرفت مضبوط کردی۔ ان میں سے ایک نے زبردستی ساجدہ کو ماں سے جدا کیا ۔ ساجدہ نے ماں کی چیخیں سنی۔ کیسی نے اسے زمین پر گرا کر اسکی شلوار کھنچ لی۔ ساجدہ نے ا پنی ٹانگوں کے درمیان ایک زبردست درد محسوس کیا جیسے کیسی نے چھری سے اسکو کاٹا ہو۔ یہ درد پھر سارے بدن میں پھیل گیا۔اسکے بعد اسکی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔

٭٭٭

کچھ دنوں بعد جب ساجدہ کی آنکھ کھولی تو اسکا سارا بدن آگ کی طرح جل رہاتھا۔
"ماں، ساجدہ چلائی"۔ نرس نے جھک کر ساجدہ کوگلے سے لگا لیا۔
"میری ماں کہاں ہے؟" ۔نرس کی آنکھوں سے آنسوگرنے لگے۔

٭٭٭

" دائی ماں آپ ساجدہ کو بھی اپنے پاس رکھ لیں"۔
" یہ گیارویں بچی ہے میں ان سب کی کیسے دیکھ بھال کرو ں گی۔" محلے کی دائی نے کہا۔
" ہم آپ کی پیسوں سے مدد کریں گے۔ مگر ہسپتال میں زخمیوں کے لئے جگہ کی ضرورت ہے۔"
" بیٹی تم مجھ کو اپنی ماں سمجھو" ۔دائی ماں نے ساجدہ کا ہاتھ پیار سے پکڑا اور کھلی جگہ میں لائی۔
" اب یہ سب لڑکیاں تمہاری دوست اور بہن ہیں۔ یہ تمہارے سونے کی جگہ ہے " ۔دائی ماں نےایک چادر کی طرف اشارہ کیا۔


٭٭٭

ہر لڑکی کی کچھ نہ کچھ زمہ داری تھی۔ ساجدہ کے ذمہ کنواں سے پانی لانا تھا۔ وہ صبح جاتی اور کنواں سے پانی لاتی۔ کنواں بہت دور تھا اورہر وقت قطار لگی ہوتی تھی اور اسکی وجہ سے پانی لانے میں کافی وقت لگتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرا بچیوں کے پیٹ بڑھنے لگے۔دائی ماں کو بچیوں کو بتانا پڑھا کہ ان کے جسم میں یہ تبدیلیاں کیوں آرہی ہیں۔


٭٭٭

ساجدہ کوخاموشی لگ گی اُس نےسب سے بات کرناچھوڑ دیا۔ہروقت اپنا پیٹ نوچتی رہتی یہاں تک کہ اس سےخون رسنے لگتا اور دائی اماں اس کے ہاتھ باندھ دیتی۔ ساجدہ ، جو کچھ بھی اسکے پیٹ میں تھا اس کونکال کر پھنک دینا چاھتی تھی۔


٭٭٭

نوماہ گزر گے۔ دائی ماں کا گھر بچوں سے بھر گیا۔ بہت بچے ماں پر نہیں گے۔ ان سانولی ماو ں کے بچوں کے رنگ سانولے نہ تھے۔ رنگ علاوہ ساجدہ کا بچہ اندھا پیدا ہوا۔ ساجدہ کواس بچے سے اسی نفرت تھی کہ اس نےاس سے بلکل تعلق قطع کرلیا۔ دوسری لڑکیاں اس کےبچہ کی دیکھ بھال کرتیں۔ ساجدہ اپنے حصہ کا کام روز کرتی اور ہر شام پہاڑی پر بیٹھ کر نیچے بہتے دریا کو دیکھتی۔
اسی طر ح کی ایک شام وہ پہاڑی پر بیٹھی تھی کہ ایک چیل اس سے کچھ دور آکر بیٹھی۔ساجدہ نے چیل سے پوچھا تم کیوں اُڑتی ہو؟ چیل نے اپنے پر پھیلائے۔ ساجدہ نے کھڑے ہو کر چیل کی نقل کی۔ چیل نے پہاڑی کے کنارے کی طرف چلنا شروع کیا ساجدہ نے بھی۔ چیل نے اپنے پر ہلائے اور وہ اڑنے لگی۔ ساجدہ کنارے تک پہونچ چکی تھی۔اس نے بھی ایک قدم بڑھایا۔۔۔
۔۔۔اور وہ بھی بہ پروازتھی۔ اس نے ہوا کو اس طرح محسوس کیا جیسے ہوا اس کے جسم سے اس کے بھائیوں کی دی ہوئی غلاظت کوصاف کر رہی ہو ۔ پہلی باراس نے اپنے آپ کو ہلکا محسوس کیا ۔آخری بار ساجدہ نے سوچا پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟۔ وقت رُک گیا۔ اور ساجدہ کا ذہین خاموش ہو گیا۔
.
 

نبیل

تکنیکی معاون
فرخ نے کہا:
یہ کہیں 1971 کے وقت کی کہانی تو نہیں؟

فرخ، میرے خیال میں اس کہانی میں جو پیٹرن پیش کیا گیا ہے، وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ ازل سے انسان اپنے ہی ہم جنسوں کی بستیاں اور شہر اجاڑتا رہا ہے اور عصمتیں تار تار کرتا رہا ہے۔ اس میں کسی ملک، نسل یا مذہب سے تعلق رکھنے والوں میں تفریق نہیں ہے۔
 

فرخ

محفلین
جی نبیل بھائی
لیکن جس قسم کا علاقائی تاثر نظر آ رہا ہے، اس سے مجھے خیال آیا کہ یہ 1971 کے زمانے کی بات نہ ہو۔ کیونکہ اسمیں استانی جی مشرقی اور مغربی پاکستان کا ذکر کر رہی تھیں اور بد قسمتی سے،ہم مغربی پاکستان کو اب بنگلہ دیش کی صورت میں دیکھ رہے ہیں اور اسوقت مکتی باہنی کی سازشوں نے بہت نقصان کیا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فرخ نے کہا:
جی نبیل بھائی
لیکن جس قسم کا علاقائی تاثر نظر آ رہا ہے، اس سے مجھے خیال آیا کہ یہ 1971 کے زمانے کی بات نہ ہو۔ کیونکہ اسمیں استانی جی مشرقی اور مغربی پاکستان کا ذکر کر رہی تھیں اور بد قسمتی سے،ہم مغربی پاکستان کو اب بنگلہ دیش کی صورت میں دیکھ رہے ہیں اور اسوقت مکتی باہنی کی سازشوں نے بہت نقصان کیا۔

فرخ، میں نے دوبارہ دیکھا ہے تو تمہاری بات ٹھیک لگ رہی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
تفسیر۔ اگرچہ یہ کہانی میں سمت کے شمارہ 4 کے لئے لئ چکا تھا اور یہ خیال تھا کہ تم کو اطلاع یا اجازت کی کارروائی کر چکا ہوں۔ شاید وہ پیغام پوسٹ نہیں ہپو سکا تھا۔ اب لکھ رہا ہوں کہ اگر اجازت ہو تو یہ کہانی سمت میں شامل کر لوں۔ اگر اجازت نہیں ہوگی تو میں اس کو نکال دوں گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
تفسیر بھائی، کیا یہ آپ نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے حوالے سے لکھی ہے؟ کیونکہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستانی افواج نے اس طرح کے کام نہیں کیے تھے۔ دوسری بات یہ کہ چھ سال کی بچی کو ماں بنتا دکھانا کافی غیر سائینٹیفیک بات ہے۔ اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ افسانہ ہے تو ٹھیک ہے، اچھی کاوش ہے۔ لیکن اگر یہ کوئی حقیقت بیان کی گئی ہے تو پھر اس کا کوئی ثبوت بھی دیا جانا چاہیے۔
بےبی ہاتھی
 

نبیل

تکنیکی معاون
منصور، دیکھا تو ہم سے بھی نہیں ہے کسی نے پاک فوج کے اس کام کو۔ لیکن کیا کریں، جب اتنی جگہ پڑھ چکے ہیں تو کوئی تو بات ہوگی۔ بہرحال اگر تم چاہو، تو اس موضوع پر تاریخ کے زمرے میں ایک تھریڈ شروع کر سکتے ہو۔ وہاب نے حمودالرحمن کمیشن ککی رپورٹ پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ یہ موضوع بھی اس سے متعلقہ ہی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شکریہ نبیل بھائی۔ ویسے ابھی میرے امتحان ہونے والے ہیں۔ اس ماہ کے اختتام پر میں‌فارغ ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد پھر کوئی ایسا کام ہو سکے گا۔ دوسرا ابھی وکی پر بھی توجہ دینی ہے۔ :) وہاب بھائی کا کام دیکھ کر اس کی روشنی میں آگے بڑھیں گے انشاءاللہ۔
بےبی ہاتھی
 

تفسیر

محفلین
اعجاز اختر نے کہا:
تفسیر۔ اگرچہ یہ کہانی میں سمت کے شمارہ 4 کے لئے لئ چکا تھا اور یہ خیال تھا کہ تم کو اطلاع یا اجازت کی کارروائی کر چکا ہوں۔ شاید وہ پیغام پوسٹ نہیں ہپو سکا تھا۔ اب لکھ رہا ہوں کہ اگر اجازت ہو تو یہ کہانی سمت میں شامل کر لوں۔ اگر اجازت نہیں ہوگی تو میں اس کو نکال دوں گا۔

اِجازت ہے -
اعجاز صاحب آپ کے خط میں “ہپو“ پاکستانی اردو لغت ( فیروزُللُغات )میں نہیں ملا - کیا یہ ہندی کا لفظ ہے؟
 
نبیل نے کہا:
منصور، دیکھا تو ہم سے بھی نہیں ہے کسی نے پاک فوج کے اس کام کو۔ لیکن کیا کریں، جب اتنی جگہ پڑھ چکے ہیں تو کوئی تو بات ہوگی۔ بہرحال اگر تم چاہو، تو اس موضوع پر تاریخ کے زمرے میں ایک تھریڈ شروع کر سکتے ہو۔ وہاب نے حمودالرحمن کمیشن ککی رپورٹ پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ یہ موضوع بھی اس سے متعلقہ ہی ہے۔

نبیل اس موضوع پر بہت عمدہ بحث ارشاد احمد حقانی کے کالمز میں ہوئی ہے، میں کوشش کروں گا کہ اسےپوسٹ کرسکوں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
محب، اس موضوع پر ضرور بات ہونی چاہیے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تیس سال تک حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کو شائع نہیں ہونے دیا گیا۔ ارشاد احمد حقانی کے کالموں کے علاوہ بھی بہت سے کالم ہیں جن میں اس پر بات ہوئی ہوئی ہے۔ اچھا تو یہ ہوگا کہ خود کچھ بنگلہ دیش کے لوگوں کی زبانی بھی سنا جائے کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ مغربی پاکستان والوں کو تو ہر وقت بہادر پاکستانی افواج کی پیش قدمی اور غداروں کی شورشوں کی خبریں سنا کر فریب دیا جاتا رہا تھا۔ میں نے کچھ بنگہ دیش کے لوگوں کی تحریریں بھی پڑھی ہیں اس موضوع پر۔ وقت آنے پر انہیں بھی یہاں پیش کر دیا جائے گا۔
 
نبیل نے کہا:
محب، اس موضوع پر ضرور بات ہونی چاہیے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تیس سال تک حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کو شائع نہیں ہونے دیا گیا۔ ارشاد احمد حقانی کے کالموں کے علاوہ بھی بہت سے کالم ہیں جن میں اس پر بات ہوئی ہوئی ہے۔ اچھا تو یہ ہوگا کہ خود کچھ بنگلہ دیش کے لوگوں کی زبانی بھی سنا جائے کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ مغربی پاکستان والوں کو تو ہر وقت بہادر پاکستانی افواج کی پیش قدمی اور غداروں کی شورشوں کی خبریں سنا کر فریب دیا جاتا رہا تھا۔ میں نے کچھ بنگہ دیش کے لوگوں کی تحریریں بھی پڑھی ہیں اس موضوع پر۔ وقت آنے پر انہیں بھی یہاں پیش کر دیا جائے گا۔

بالکل بات ہونی چاہیے نبیل مگر بات وہ ہونی چاہیے جو دلیل اور مضبوط شواہد کے ساتھ ہو ، ارشاد احمد حقانی اس لحاظ سے ایک معتبر نام ہے اور اک عمر گزری ہے اس دشتِ خار میں اس کی ۔ دوسرا اس نے وہ وقت خود بھی دیکھا ہوا ہے اور تیسرا وہ بہت حد تک غیر جانبدار بھی رہتا ہے۔ جن کالمز کی میں بات کررہا ہوں اس میں سب سے پہلے ایک امریکی خاتون کی رپورٹ کا ذکر ہے اور اس کے بعد یہ بحث شروع ہوتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان نے اس واقع کو بہت بڑھا چڑھا کر اور پاکستان کا امیج بگاڑنے کے لیے متعدد بار استعمال کیا ہے۔ تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر بات ہونی چاہیے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
محب، ارشاد حقانی کوئی حرف آخر نہیں ہے کہ اس کی بات کو ہی دلیل مان لیا جائے۔ اس کے تجزیوں کو میں بھی عرصے سے پڑھتا آیا ہوں اور اس کی رائے کو بھی بدلتے دیکھا ہے۔ باقی میں بھی ٹھوس حقائق میں ہی دلچسپی رکھتا ہوں۔ جہاں تک ہندوستان کے پراپگینڈے کا تعلق ہے تو میں اس کے بارے میں صرف یہی کہوں گا کہ ہمیں باہر کا حریف اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا ہماری اپنی کمزوری نقصان پہنچاتی ہے۔ پنجاب کا سابق آئی جی چودھری سردار محمد 1971 میں یحیٰ خان کے پرسنل سٹاف میں تھے اور وہ اس زمانے کے واقعات کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ ان کی کتاب جہان حیرت تصویری شکل میں ملت آن لائن کی سائٹ پر مل بھی جائے گی۔ یہی کتاب انہوں نے انگریزی میں بھی The Ultimate Crime کے نام سے لکھی ہے۔ اس کا مطالعہ بھی کافی چشم کشا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی لوگ ہیں جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کو دیکھا ہوا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو سقوط ڈھاکہ کے بعد انڈیا کی قید میں رہے ہوئے ہیں۔ صدیق سالک نے بھی ایک کتاب Witness to Surrender لکھی ہوئی ہے۔

حقانی صاحب نے یقیناً اچھا لکھا ہوگا لیکن اس موضوع پر اور دوسرے معتبر حوالے بھی موجود ہیں۔
 
اس میں سب سے بڑی رپورٹ تو خود حمود الرحمن کمیشن رپورٹ‌ ہے جو بڑی مشکل سے اور بڑی محدود تعداد میں شائع ہوئی ہے۔ باقی جتنے ذرائع سے معلومات آئے وہ اچھا ہے۔
 
Top